نئے پاکستان میں حکومتی کارکردگی اور ہاتھ کی کالک


اللہ اللہ کر کے کرپٹ اور نااہل سیاستدانوں سے جان چھوٹی، طاقت کے اصل مرکز (یعنی عوام) نے زمام اقتدار ایک نئی قیادت کو سوپنی اور ایک تاریخی دور یعنی نئے پاکستان کا کا آغاز ہوا۔ پنجاب کا وزیراعلی بھی منتخب ہو گیا جس کی واحد خوبی اس کا پسماندہ علاقے سے ہونا بتائی جا رہی ہے۔ کون کہتا ہے ہم علم اور تحقیق کے میدان میں کچھ نیا نہیں کر رہے! بھائی دیکھیں ہم نے دنیا کوبتایا کہ پسماندگی اور بجلی کا نہ ہونا میرٹ ہے۔ کیا دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا دماغ اس طرح سوچ سکتا ہے؟ البتہ مخالفین بزدار کے علاقے کی پسماندگی کا باعث خود موصوف کو اور ان کے خاندان کو قرار دے رہے ہیں۔ یہ خاندان ایک مدت سے اس علاقے سے عوام کی نمائندگی کر رہا ہے۔ حسن نثار جیسے صحافی جو تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، انھوں نے بھی بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانے کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ بہت دلچسپ بات کی۔ فرمایا تین بار ان کے والد ایم پی اے رہے، یہ خود ایک بار تحصیل ناظم رہے، اگر اب بھی وہاں بجلی نہیں پہنچی تو پھر بزدار کوکرنٹ لگانا چاہیے!

ایک بات کی سمجھ بالکل نہیں آئی کہ وفاقی کابینہ میں جب دوسری جماعتوں خاص طور پر مشرف دور کے وزراء سے کابینہ بھری گئی اور اس عمل پرجب اعتراض اٹھایا گیا کہ کیا پی ٹی آئی میں نئے چہرے اور نئے لوگ نہیں ہیں تو جواباً یہ دلیل دی گئی کہ حکومتی معاملات چلانے کے لئے تجربے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دوسری طرف سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اہم ترین ذمہ داری ایک انتہائی ناتجربہ کار شخص کو سونپ کر اپنی ہی دلیل کی نفی کی گئی۔ وزیراعظم صاحب نے کچھ عرصہ قبل فرمایا بھی تھا کہ شکر ہے ہمیں مرکز میں حکومت نہیں ملی کیونکہ ہمیں حکومت کا تجربہ ہی نہیں تھا، گویا وہ تجربہ کے پی حکومت میں رہ کر حاصل کیا اور اب اس کی روشنی میں ملک و ملت کی بہتری کے لیے فرائض سرانجام دیں گے۔

سوال یہ ہے کہ ایسا ناتجربہ کارشخص جو ایک چھوٹے سے خطے کو جدید دنیا سے ہم آہنگ نہ کر سکا وہ اتنے بڑے صوبے کے طول وعرض میں پھیلی بدحالیوں کا کیا علاج کرے گا۔ اس کے سر پر دوتجربہ کار جغادری بٹھا دیے گئے ہیں اور لگتا ہے یہ ان ہی کا تجربہ کام میں لائے گا، لیکن جن کا تجربہ کام میں لایا جائے گا وہ اور بھی بہت کام دکھائیں گے۔ ان کی موجودگی میں یہ نونہال پودا کیسا پھلے پھولے گا، یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن بزدار کو جس صورت حال کا سامنا ہو گا، وہ یقیناًاتنی خوشگوار نہیں ہوگی۔

ایک لطیفہ سن لیجے کہ اس میں ایک ممکنہ کامیابی کا ذکر ہے اور اس کا کہیں سے بھی تعلق کسی جماعت کی فتح یابی یا کسی پسماندہ علاقے کے وزیر اعلی سے نہیں ہے۔ یہ قصہ ہے دو ریاستوں کا، ایک سکھ ریاست تھی اور دوسری کوئی اور۔ صورتِ حال یہ تھی کہ سکھ ریاست میں بہت غربت تھی، عوام بے پناہ مسائل کا شکار تھے لیکن دوسری ریاست کافی خوشحال تھی۔ سکھوں کے اہل دانش یعنی تھنک ٹینکس نے غربت سے نجات کا منصوبہ بنایا اور یہ منصوبہ اپنے بڑوں کے سامنے رکھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ سکھ فوج مخالف فوج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے گی جس کے نتیجے میں باقاعدہ جنگ چھڑ جائے گی۔ مخالف فوج انہیں فتح کر لے گی اور ان کے قبضے میں چلے جانے کے بعد سکھوں کے حالات بھی بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ جب یہ سارا منصوبہ پیش کیا جا چکا اور اس کے تمام پہلووں کا باریکی سے جائزہ لیا جا چکا تو ان عالی دماغوں نے محسوس کیا کہ محفل میں موجود ایک بزرگ خاموشی سے سب باتیں سن رہے ہیں لیکن کچھ بول نہیں رہے۔ ان سے جب خاموشی کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا، میں سوچ رہا ہوں اگرخدانخواستہ یہ جنگ ہم جیت گئے تو کیا ہوگا؟

حکومت کے حالیہ اقدامات اور بوکھلاہٹ دیکھ کر کچھ ایسا ہی گمان پڑتا ہے کہ انہیں جیتنے کے بعد سمجھ نہیں آرہا کہ اب کیا کریں۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال وفاقی کابینہ کے معاملے میں بھی سامنے آئی۔ ایک تو اس کابینہ میں پی ٹی آئی کے علاوہ اور خاص طور پر مشرف کے دوست موجود ہیں۔ پہلے مختصر ترین کابینہ بنانے کا کہا گیا، اب سنا ہے مزید وزراء حلف اٹھا رہے ہیں۔ سو کئی قسم کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور اس کا سبب اپوزیشن نہیں بلکہ یہ عالی دماغ خود ہیں۔

حکومت کی ابتدائی دنوں کی اعلی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو صورتِ حال اورواقعات کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے۔ حلف میں گھبرانا، گارڈ آف آنر میں شرمانا، اسمبلی میں منتخب ہونے کے بعد کنٹینر اسٹائل میں تقریر، عید پر نماز سے غیر حاضری، چائے بسکٹ، ہیلی کاپٹر 55 روپے میں، جہاز میں فیملی، ایوانِ وزیرِاعلی، بنی گالا سے وزیرِاعظم ہاؤس اور واپسی، امریکی صدر کی بجائے وزیرِخارجہ کا فون، اس پر لے دے، خاور مانیکا، پاک پتن، ہسپتال پروٹوکول میں بچی جاں بحق،عامر لیاقت، ایل این جی کی قیمت اور 10 دن کی ریکارڈ مدت میں حکومت مخالف مظاہرے۔

اب احباب کہتے ہیں کہ حکومت کو وقت نہیں دیاجا رہا حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ تنقید حکومت کی پالیسیوں پر نہیں ہو رہی کیونکہ پالیسی تو ابھی واضح ہی نہیں ہوئی اور واضح ہو بھی کیسے، کچھ ہاتھ میں ہو تو واضح ہو۔ تنقید تو ان کے اپنے بیانات کی مضحکہ خیزی پر ہو رہی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی طالبعلم تیاری کے بغیر کلاس میں چلا گیا ہو اورجب ٹیچر ہوم ورک کا پوچھے تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اور طرح طرح کے بہانے بنانے لگے اور یوں صورت حال مزید مضحکہ خیز ہو جائے۔

اپنا ایک شعر یاد آرہا ہے

بوکھلاہٹ میں یہ کیا صورت بنا لی آپ نے

ہاتھ کی کالک تھی، چہرے پر لگا لی آپ نے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).