انگریز ڈپٹی کمشنر بھی مانیکاؤں کے ڈیرے پر حاضری دیتا تھا


آپ کو علم ہو گا ہی کہ ہماری تاریخ میں بہت زیادہ تحریف کی جا چکی ہے۔ اسی وجہ سے ہم اپنے بہت سے قابلِ فخر ہیروز کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ اب یہی پاک پتن کی مانیکا فیملی لے لیں۔ ہمیں علم ہی نہیں تھا کہ ان کا ایسا دبدبہ تھا کہ ایسے ایسے انگریز افسر ان کے ڈیرے پر حاضری دیتے تھے جن سے نواب کالاباغ جیسے دہشت والے جاگیردار بھی کانپتے تھے۔ یہ بات تاریخ کے تاریک پردوں میں چھپی رہتی اگر ہمارے عظیم چیف جسٹس پاک پتن کے واقعے پر نوٹس نہ لے لیتے۔

سپریم کورٹ میں سابق ڈی پی او رضوان گوندل نے بتایا کہ ”احسن گجر نے مجھ سے کہا کہ آپ بڑے پن کا ثبوت دے کر مانیکا کے پاس جائیں، ان کے دادا، پردادا بڑے لوگ تھے، اب سے نہیں بہت پہلے سے جاگیردار فیملی ہے، انگریز دور میں ڈی سی اور ڈی پی او ان کے ڈیرے پر جاتے تھے“۔

یہ ایک چشم کشا انکشاف ہے۔ آج سے پہلے ہم یہی سمجھتے آئے تھے کہ معمولی انگریزی اہلکار بھی مقامی شرفا کے سامنے فرعون بنے بیٹھے رہتے تھے اور ڈپٹی کمشنر تو اپنے علاقے کا بے تاج بادشاہ ہوتا تھا جسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ ہمارا یہ بھی گمان تھا کہ ڈی پی او کا عہدہ جنرل پرویز مشرف کی تخلیق ہے۔ ہمیں یہ غلط فہمی انگریز دور کے دیسی بیوروکریٹس قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر کی کتابیں پڑھ کر اور ناول جانگلوس کو سچ مان کر ہوئی تھی۔ شکر ہے آج دونوں غلط فہمیاں دور ہوئیں۔ آپ خود پڑھیں کہ الطاف گوہر وغیرہ کیسی کیسی غلط فہمیاں پھیلاتے رہے ہیں۔

الطاف گوہر اپنی کتاب ’لکھتے رہے جنوں کی حکایت‘ میں نواب کالا باغ امیر محمد خان سے ایک دلچسپ روایت کرتے ہیں کہ ”ہم لوگ چندہ تو مسلم لیگ کو ادا کرتے تھے مگر ہماری اصل سیاست اپنے کمشنر کی سیاست تھی۔ ایمرسن صاحب (انگریز کو وہ ہمیشہ ’صاحب‘ ہی کہتے تھے) جو کہہ دیتے ہم وہی کرتے تھے۔ لاہور کے ڈپٹی کمشنر کا گھر گورنمنٹ ہاؤس کے قریب ہی ہوتا تھا۔ یکم جنوری کی صبح ہم لوگ وہاں اکٹھے ہو جاتے تھے۔ بڑے بڑے طرے لگا کر، نیلے گنبد والے کپور تھلہ ہاؤس کی بنی ہوئی نئی شیروانیاں پہنتے، ہر ایک زمیندار، جس میں ٹوانے، نون، دولتانے اور ممدوٹ سب شامل ہوتے، اپنے ساتھ نذر کی ڈالیاں لاتے۔ ہم سب خاموشی سے شامیانے کے نیچے کھڑے ہو جاتے۔ بات تو کیا، کھسر پھسر بھی نہیں کرتے تھے۔ سب اس انتظار میں کہ ابھی ڈپٹی کمشنر بہادر نمودار ہوں گے تو باجماعت کورنش بجا لایں گے۔

صاحب بہادرنشہ میں مدہوش پڑے ہوتے۔ نئے سال کی آمد کی خوشی میں انھوں نے جام پر جام لنڈھائے ہوتے۔ کوئی گیارہ بجے کے قریب ایک باوردی چوبدار چک اٹھا کر باہر آتا اور اعلان کرتا ’صاحب بولا، سلام ہو گیا‘۔ اب ہم بڑے جوش و خروش سے ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے اور مبارک سلامت کا غلغلہ مچ جاتا۔ کمشنر بہادر تک ہم زمینداروں کی رسائی مشکل سے ہوتی تھی۔ “ یاد رہے کہ یہ وہ نواب کالا باغ تھے جو جنرل ایوب خان کے دور میں مغربی پاکستان کے گورنر تھے اور یہاں کا بچہ بچہ ان کی دہشت سے کانپتا تھا۔

اب ہم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ برطانوی ہندوستان کے اصل راجے یہ ٹوانے، نون، دولتانے اور ممدوٹ وغیرہ ہوا کرتے تھے اور ان کے سرخیل نواب کالا باغ تھے۔ اب سپریم کورٹ کی کارروائی سے علم ہوا کہ یہ سب تو دوسرے درجے کے جاگیردار تھے جن کے ساتھ انگریز ڈپٹی کمشنر ایسا تحقیر آمیز سلوک کیا کرتا تھا کہ اپنے در پر کھڑا رکھتا تھا اور ملتا تک نہیں تھا۔ اصل طاقت تو مانیکا خاندان کے پاس تھی جس کے ڈیرے پر یہ انگریز ڈپٹی کمشنر خود چل کر جایا کرتا تھا۔

ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نئے پاکستان کی تاریخ درست کی جائے اور انگریز ڈپٹی کمشنروں کو ان کے بادشاہی مقام سے اٹھا کر نئے پاکستان میں ان کے درست مقام پر رکھا جائے۔ نیز پاکستانی افسر شاہی کو بھی سول سروسز اکیڈمی میں واضح طور پر بتایا جائے کہ وطن عزیز کی تاریخ اور حال میں مانیکا فیملی کا کیا مقام ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar