مظلوم سائنسدان


عمران خان کی حکومت آتے ہی ملک میں سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی گئی جس میں یہ مطالبہ تھا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ان کی خدمات کے صلے میں صدر پاکستان بنایا جائے۔ یہ مطالبہ بے چارے عوام کا تھا جو فرط محبت میں یہ باتیں کررہے تھے۔ انھیں کیا معلوم کہ یہاں خدمات کے صلے میں عہدے نہیں دیے جاتے بلکہ دیے گئے عہدے بھی چھین لیے جاتے ہیں۔ انھیں عزت دینے کے بجائے ان کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ انھیں ہیرو بنانے کے بجائے زیرو بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستانی ایٹم بم کے خالق، عظیم مسلمان سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے ساتھ بھی ایساہی کچھ کیا گیا۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان وہ مایہ ناز مسلمان سائنس دان ہیں جنھوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصے میں ان تھک محنت و لگن کی ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نام ور نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالا تھا۔ مئی ۱۹۹۸ء میں آپ نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلہ میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے کی درخواست کی اور آپ نے چاغی کے مقام پر چھ کام یاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کیے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبد القدیر خان نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع نا قابل تسخیر بنا دیا ہے۔

1989ء میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ہلال امتیاز کا تمغا عطا کیا گیا۔ 1993ء میں کراچی یونیورسٹی نے ان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔ 14 اگست 1996ء میں صدر پاکستان فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا۔ ایٹمی دھماکا ڈاکٹر عبد القدیر خان کی پاکستان کی سلامتی کے لیے یہ ایک ایسی کاوش تھی، جس نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت Critical Mass کے مصنف نے لکھا: ”پاکستان ٹیکنا لوجی کی اس معراج کو پہنچ جائے گا کہ وہ ایٹم بم بنا سکے گا، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا، کسی اور قوم کی تاریخ ایسی نہیں ہے کہ انھوں نے وسائل کی اتنی کمی کے باوجود اتنا کچھ کر دکھایا ہو، جتنا پاکستانی قوم نے کیا۔ ہر لحاظ سے پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ ایک سو سے زائد دُنیا کے ممالک میں پاکستان غربت کی سطح کے 120 ویں نمبر پر آتا ہے، اس کی اکثریت ان پڑھ ہے۔ پاکستان مشکل سے زندہ رہنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے پاس ایران جیسا تیل کا ذخیرہ نہیں ہے، نہ عراق کے شیوخ کی دولت ہے۔ اس کی صنعت بھی بھارت کے مقابلے جیسی نہیں ہے۔ اسرائیل جیسے سائنس دانوں کی کھیپ بھی اس کے پاس نہیں ہے۔ یہ کوریا جیسا رازداں بھی نہیں ہے، جو کسی بھی ملک کی مضبوطی کی علامت ہوا کرتی ہے، الغرض پاکستان ایک ایسا استثنیٰ کہ جو ہر قاعدے کی نفی کر رہا ہے۔ ایسے میں اس کا ایٹمی قوت ہو جانا کسی طور معجزے سے کم نہیں۔

ڈاکٹر صاحب کے اس کام پر پوری دنیا میں پذیرائی ہوئی لیکن پاکستان میں ان پر بے بنیاد الزام لگا کر ان کی کاوشوں کو داغ دار کیا گیا۔ ان کا عرصۂ حیات تنگ کیا گیا۔ ایٹمی دھماکے کے بعد مغربی دنیا نے پروپیگنڈا کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو ”اسلامی بم” کا نام دیا، جسے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بخوشی قبول کر لیا۔پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر صاحب پر ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کا الزام لگایا گیا اور اسی الزام میں آپ کو نظر بند کر دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے دیرینہ رفیق جبار مرزا صاحب اپنی کتاب ”نشانِ امتیاز” میں لکھتے ہیں: کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ غیر ملکی پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں اور ہم محسنوں کو مجرم بنا کے ترنگ میں کہتے پھرتے ہیں کہ ”میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں!” حالاں کہ جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے سامنے تاریخ کا سب سے بڑ ا بزدل ہونے کی مثال قائم کی ہے۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی اور باقاعدہ مہم چلا کر اس کا اعزاز ”ثمر مند” کے سر رکھنے کی کوشش کی گئی۔ مشاہد سید حسین اور ان کے چاہنے والے جن میں خلیل ملک بھی شامل تھے، انھوں نے 28 مئی 1998ء کو چاغی کی سرنگ میں کیے جانے والے طاقت ور ایٹمی دھماکے کا سہرا ”ثمر مند” کو پہنانے کی کوشش کی۔ راتوں رات راولپنڈی اسلام آباد کی شاہ راہوں کی دیواروں پر ثمر مبارک مند زندہ باد، چاغی کے ہیرو کو دھماکے مبارک کے نعرے لکھوا دیے۔ ثمر مبارک مند کی آمد پر اس کا بھر پور استقبال کر کے میڈیا کو تاثر دیا گیا کہ ایٹمی دھماکوں کا ہیرو ثمرمند مبارک مند ہی ہے۔ حالاں کہ پاکستان کے سابق صدر غلام اسحاق خان نے زاہد ملک کے نام اپنے ایک خط میں لکھا تھا: ”یہ افسوس ناک بات ہے کہ 28 مئی 1998ء کے تجربات کی کام یابی میں غیر ضروری تضاد پیدا کر دیا گیا ہے، کہ اس کی کام یابی میں کون کتنا حصہ دار ہے۔ یہ ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ان کی کے آر ایل ٹیم کے سوا کوئی اور نہ تھا۔ ”اسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھی جبار مرزا پر بھی یہی دباؤ ڈالا گیا۔ جب ان پر خفیہ اداروں نے دباؤ ڈالا کہ ثمر مند کو ہیرو بناو، انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو میں نے ہیرو نہیں بنایا، میں ہیرو نہیں بناتا اور ہیرو بنائے بھی نہیں جاتے، ہیرو پیدائشی ہوتے ہیں۔ ثمر مند نہ آج ہیرو ہیں نہ کبھی بن سکیں گے۔

تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ سرکاری پریس ریلیز جو جاری ہوئی، اس میں ثمر مبارک مند کو ہیرو بنایا گیا اور اخبارات میں بھی اسی پریس ریلیز کی بنیاد پر خبریں بنائی گئیں اور ثمر مبارک مند کو زبردستی ہیرو بنایا گیا۔ الغرض! ڈاکٹر عبد القدیر خان کا احسان مند ہونے کے بجائے ان پر روزِ اول ہی سے ملک کے اندر اور باہر مسلسل تنقید ہو رہی ہیں۔ بیگانے تو بیگانے، اپنے بھی ان کی کر دار کشی کرنے میں مصروف ہیں۔ ان پر عرصۂ حیات تنگ کر کے ان کی خدمات کا صلہ دیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان اپنے کالم ”فقید المثال گم نام ہیروز ”میں میزائل لانچنگ کے متعلق لکھتے ہیں: ”اپریل 1998ء میں جب ایک اہم ٹیسٹ کرنے والے تھے، تو ہم نے کہوٹہ کے قریب لانچنگ سائٹ بنائی تھی، کیوں کہ ہمارے لیے یہ سیکورٹی کے لحاظ سے اور ہر قسم کی سہولت قریب ہونے کی وجہ سے بہت مناسب جگہ تھی۔ لانچنگ سے دو دن پہلے ایک اعلیٰ افسر جو خود کو عقل کل سمجھتے تھے اور اکثر اچانک اُلٹے سیدھے فیصلے کر لیتے تھے، کو یہ خیال آیا کہ میزائل جب داغا جائے گا تو پنڈی پر سے گزرے گا اور اگر یہ وہاں گر گیا تو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہمیں سائٹ تبدیل کرنے کو کہا گیا۔ ہمارے لیے یہ بہت بڑی پرابلم بن گئی۔ ان صاحب کو سمجھایا کہ اگر میزائل میں خرابی ہوتی ہے تو لانچنگ کے وقت یا فوراً بعد ہوتی ہے اور چند سیکنڈ میں یہ میزائل تین سو کلو میٹر سے بھی اونچا چلا جاتا ہے، اگر اس دوران میزائل پھٹ جائے تو اس کے اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہو جاتے ہیں کہ ان کے گرنے سے کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ بہرحال ہمیں ٹلّہ جہلم سے میزائل فائر کرنا پڑا۔
”آگے لکھتے ہیں: ”یہاں ایک اہم واقعہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں جہلم اور ٹلّہ رینج کور کمانڈر منگلا کے انڈر آتی ہے، اس وقت وہاں کا کور کمانڈر مشرف تھا۔ میں نے ازراہ خوش اخلاقی اس کو فون کیا کہ ہم آپ کے علاقہ سے لمبی مار کے، ایٹمی ہتھیار لے جانے والی، بیلسٹک میزائل فائر کرنے والے ہیں میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اور یہ لانچنگ دیکھیں۔ اس نے کہا مجھے چیف جنرل جہانگیر کرامت نے اس کی اطلاع دی ہے اور نہ ہی دعوت دی ہے کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں۔ میں نے کہا میں ان کو بتا دوں گا کہ میں نے دعوت دی ہے، جنرل کرامت بہت نرم مزاج، کم گو اور اچھے افسر ہیں انھوں نے اجازت دے دی۔ دوسرے دن صبح سات بجے جنرل مشرف اپنے ہیلی کاپٹر میں آئے، مجھ سے میرے ساتھیوں جن میں جناب چوہان (سابق سرجن جنرل پاکستان آرمی اور پھر ہمارے میڈیکل ڈویژن کے سربراہ) بھی شامل تھے ملاقات کی۔ ہم اوپر ایک چھت پر بیٹھ گئے جہاں سے ہر چیز بہت صاف نظر آ رہی تھی۔ جب مشرف نے ہم سے گفتگو شروع کی تو اس کے منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی، میں نے کہا کہ ایسے مبارک دن اس حالت میں آنا مناسب نہیں ہے اس کو یہ بات بُری لگی اور بعد میں جب یہ آرمی چیف بن گیا تو اس نے ملکی مفاد کے قطعی بر عکس یہ بیانات دیے کہ وہ میزائل ٹیسٹ فیل ہو گیا تھا اور وار ہیڈ اپنے ہدف پر نہیں پہنچا۔ اگر یہ فرض کر لیا بھی جائے کہ ایسا ہوا ہو تو کیا ایک ملک کے سربراہ کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اس قسم کے ملک دشمن بیانات دے۔ بہرحال عقل ہوتی تو یہ بات سمجھ میں آتی”۔

ڈاکٹرصاحب کے خلاف کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ جبار مرزا صاحب کی کتاب ”نشانِ امتیاز” پر پڑھ دل خون کے آنسو رو پڑتا ہے کہ ملک کے حکمرانوں نے محسن کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔ اس کتاب کا ایک واقعہ پڑھ دل دہل جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی عافیہ صدیقی کی طرح امریکہ کے قبضے میں جانے سے بال بال بچے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے دورِ آمریت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سودا کر چکے تھے۔ جنرل پرویز مشرف سے متعلق سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنی کتاب 143143143Decision Pointمیں گلہ کیا اور لکھا کہ جنرل پرویز مشرف نے وعدے پورے نہیں کیے حالاں کہ وہ عسکریت پسندوں کو لینے کے لیے جنرل مشرف کو بھاری قیمت دیتے رہے۔ صدر بش نے نام نہیں لکھا۔ اس جملے میں انھوں جس شخصیت کے نہ ملنے کا گلہ کیا ہے وہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں جن کے سر کی قیمت پرویز مشرف نے وصول کر لی تھی۔ راولپنڈی کے ہوائے اڈے چکلالہ نور خان ائیر بیس پر فوجی ٹرانسپورٹ طیارہ C-130 تیار کھڑا تھا۔ مگر اس وقت کے وزیرِ اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے بطورِ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر صاحب کی ایگزٹ پر دست خط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ظفر اللہ جمالی صاحب کی وزارتِ عظمیٰ سے جبراً علیحدگی کردی گئی تھی اور چودھری شجاعت کو وزیرِ اعظم بنا دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب پر مقدمہ چلا کر 2004ء میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا۔ صرف ایک ہی جرم تھا کہ انھوں نے پاکستان کو مضبوط کرنے اور ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ایٹمی پروگرام کو مضبوط کیا۔ بس اسی جرم کی پاداش میں نظر بند کیا گیا۔ بہت سارے الزامات لگائے گئے لیکن پانچ سال تک ایک بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ بالآخر 6 فروری 2009ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے محسنِ پاکستان کو با عزت بری کیا لیکن اسی کے ساتھ چند شرائط لگائی گئیں۔ وہ یہ تھیں کہ اگلی ساری عمر بیرونِ ملک نہیں جا سکیں گے۔ فارن میڈیا سے نہیں ملیں گے، لوکل میڈیا سے ملاقات سے پہلے اجازت لینا ہو گی، لوکل شہر کے اندر کہیں جانے کے لیے چار گھنٹے پہلے اطلاع کرنی ہو گی اور بیرونِ شہر جانے کے لیے چار دن پہلے بتانا ہو گا۔ اس کے بعد حفاظت پر مامور عملے کی صواب دید پر منحصر ہو گا کہ وہ کن شرائط پر اجازت دے یا نہ دے۔ مذہبی جماعتوں کے راہنماؤں سے ملاقات کی اجازت نہیں ہو گی۔ ایک شرط یہ بھی تھی کہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان پرویز مشرف پر تنقید نہیں کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ بعض اوقات جبار مرزا صاحب جیسے ڈاکٹر صاحب کے بہت قریبی اور دیرینہ ساتھیوں کی ملاقات میں بھی رخنہ ڈال دیا جاتا تھا۔ انھیں وجوہات کی بنا پر اور ڈاکٹر صاحب کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے ظفر اللہ خان نیازی نے کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ہمارے ”زندہ شہید” ہیں ۔ ان شرائط سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محسن کے احسان کا بدلہ کس طرح دیا جا رہا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر صاحب نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ میں اب ملک کے لیے کچھ نہیں کروں گا کیوں کہ یہاں قدر کرنے کے بجائے الٹا الزام لگا دیا جاتا ہے اور زندگی عذاب بنا دی جاتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کو انھیں کے رفقا کے ذریعے بدنام کروانے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ جبار مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کے سلسلے میں میرے پاس ایک سابق فوجی کرنل آئے ۔ ابتداء انھوں نے میرے کالموں کی تعریف کی، پھر کبھی کسی سوشل مسئلے پر ہم دردی کا اظہار کیا۔ چند دن بعد مجھ سے فون نمبر مانگا۔ پھر مجھ سے ملنے آ گئے۔ مجھے پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی۔ وہ میرے گھر پر تحریک انصاف کا بہت بڑا جھنڈا لگانا چاہتے تھے جس کا میں نے انکار کر دیا۔ میرے انکار پر وہ بولے کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کی محبت کے خمار سے باہر نکلو۔

ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ آپ کے پاس گاڑی بھی نہیں ہے۔ اور گھر بھی کرائے کا ہے، بچوں کی شادیاں ابھی باقی ہیں۔ کبھی غور کیا کہ کس قدر مشکلات درپیش ہیں؟ آپ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ رہیں گے تو یہی حال رہے گا۔ پھر کہا کہ اگلے ایک آدھ دن میں ملنے آؤں گا تو خود کو بدلنے کی کوشش کر لیں۔ اگلے روز وہ میرے پاس ایک آفر لے کر آئے او ر کہا کہ بحریہ ٹاؤن اسلام آباد میں ایک کنال کی ڈبل منزل کوٹھی آپ کے لیے موجود ہے۔ میں نے کہا، میرے پاس کیش نہیں۔ وہ بولے کہ تحفہ ملے گا۔ میں نے ان کی طرف غور سے دیکھا تو وہ مزید فرمانے لگے کہ گاڑی بھی ملے گی اور ہاں دو تین سال کا پیٹرول بھی مل جائے گا۔ لیکن اس قدر مہربانی کے بدلے مجھے کیا کرنا پڑے گا؟ وہ بولے ایک کتاب تیار پڑی ہے، بس صرف آپ کا نام اوپر لکھنا ہے اور پندرہ بیس ہزار چھاپ کے بانٹ دینی ہے۔ یہ کیا کام ہوا؟ جو کتاب میں نے لکھی ہی نہیں وہ میرے نام سے کیسے چھپ سکتی ہے؟ آخر وہ کتاب ہے کیا؟ کرنل صاحب بولے وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف ہے۔ ان کی اس بات سے فوراً میرا دھیان مبشر لقمان کی کتاب ”کھرا سچ” کی طرف چلا گیا، جسے بعض دفعہ تیزی میں ”کھسرا سچ” پڑھ جاتا ہوں۔ مذکورہ کتاب مبشر لقمان نے نہیں لکھی بس اوپر اس کا نام ہے۔ وہ کتاب لغویات پر مبنی اخلاق باختہ کتاب روزنامہ جنگ کے چیف ایڈیٹر جناب میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ہتک آمیز مواد لیے ہوئے ہے۔ اور وہ کتاب بھی انھی کرنل صاحب نے چھپوائی تھی۔ بہرحال میں نے کرنل صاحب سے پوچھا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے متعلق کتاب کے لیے آپ کی نظرِ انتخاب مجھی پر کیوں پڑی؟ تو انھوں نے کہا کہ وہ اس لیے کہ آپ گزشتہ دو تین عشروں سے ڈاکٹر عبد القدیر خان کے رابطے میں ہیں۔ ان کے بھروسے کے بندے ہیں۔ اُن پر چند کتابیں آپ کی چھپ بھی چکی ہیں۔ آپ کے نام سے آئے گی تو لوگ یقین کرلیں گے۔ موقع ہے چھوڑو ڈاکٹر واکٹر کو۔ خود کو سنبھالو۔ آفر قبول کر لینے سے ہمارا مقصد تو پورا ہوگا ہی اور آپ کی بے خانمی بھی ختم ہو جائے گی۔ زندگی کے بقیہ چند دن سکون سے گزار لو گے۔ مزید کہا کہ فیصلہ کرنے میں تاخیر سے آپ کا نقصان ہو گا۔ ہمارا کیا ہے ہم تو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے مقاصد حاصل کر لیں گے۔ بس مجھے رہ رہ کر آپ کا خیال آتا ہے اسی لیے میں نے آپ سے بات کی۔
میں نے کہا: کرنل صاحب! اگر محشر میں ڈاکٹر صاحب سے میرا سامنا ہو گیا اور انھوں نے مجھ سے پوچھ لیا کہ جس بنگلے اور گاڑی کے لیے دوستی کا سودا کیا تھا وہ دنیا ہی میں کیوں چھوڑ آئے؟ قبر میں لے آتے۔ تو پھر میں انھیں کیا جواب دوں گا؟ کرنل نے کہا: جس جہاں میں زندہ ہو اس کی فکر کرو ، جو ابھی آنا ہے دیکھا بھی نہیں اس کو چھوڑ دو۔ میں نے کہا مجھے کرائے کے مکان میں پڑا رہنے دیں ۔ آخرت بچالینے دیں۔ اگر ڈاکٹر صاحب میدان حشر مجھے گریبان سے پکڑ کر میرے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور کہہ دیا کہ یہ ہے وہ بد بخت جس نے اپنی دنیا سنوارنے کے لیے میرے اعتماد کا خون کیا تو بتائیں میں کیا جواب دوں گا۔ میری بات جاری تھی کہ کرنل صاحب چائے کا آدھا کپ چھوڑ کر غصے میں کھڑے ہوئے اور گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔

ان واقعات سے حکمرانوں کی ڈاکٹر صاحب سے دشمنی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ساتھ کتنا قابلِ مذمت رویہ روا رکھا جارہا ہے۔ اعلیٰ سطح پر ان کے خلاف سازشیں کرکے انھیں بدنا م کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے حکمرانوں کا یہ رویہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ ایک ایسا شخص جسے اللہ تعالیٰ نے ملک کو ایٹمی پاور بنانے صلاحیتیں عطا کی ہوں تو اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ شکنی کرنا انتہائی افسوس ناک عمل اور ملک و قوم سے غداری کا ثبوت ہے۔ بدقسمتی سے قوم کا ہیرو آج اپنے گھر کی چار دیواری میں جیل سے بھی زیادہ سختیوں میں اپنی زندگی کے باقی ایام گزارنے پر مجبور ہے۔ جس ہیرو کو آج اپنی مرضی سے زندگی گزارنے نہیں دیا جارہا تو اسے ملک کا صدر بنانے کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).