25 واں خواب نامہ۔۔۔ دو دنیاؤں میں رہنے والی۔


30 مئی 2018
یا درویش ایک تھکی ہوئی رات تسلیمات کہتی ہے۔
رابعہ بس عجب سی ہے بیٹھے بٹھائے اچانک کسی اور دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔ یہ سب لا شعوری ہے اسے نہیں معلوم وہ کس دنیا میں اس لمحے سفر کر رہی ہوتی ہے، اور کیا لکھ رہی ہوتی ہے۔وہ لکھ کر بھول بھی جاتی ہے رات کو لکھی تحریر صبح خود اس کے لئے یک سر اجنبی ہوتی ہے۔ وہ بچپن سے دو دنیاوں میں ایک ساتھ سفر کر رہی ہے. اس کے آس پاس والوں کو لگتا ہے، جیسے وہ نشے میں ہے۔

گھر والوں کو تو اب کہیں آ کر اندازہ ہو گیا ہے کہ اس کی ذہنی دنیا کچھ اور ہے۔ وہ ہمارے ساتھ موجود ہوتے ہوئے بھی ساتھ نہیں ہوتی۔ وہ تنہائی میں بھی الگ دنیا بسائے رکھتی ہے۔ اس نے کیا بسانی ہے وہ تو بسی بسائی اس کے ساتھ سفر کر رہی ہے۔ اس لیے رابعہ درویش کو اجازت دیتی ہے کہ جو بات اس کو گزشتہ تحریر میں کسی اور دنیا والی رابعہ نے کہی ہے، وہ اس کو سمجھنے کے لیے صاف و واضح الفاظ میں پوچھ سکتا ہے۔
کام یاب ادیب….
ادیب بنا نہیں جا سکتا، یہ کوئی تحفہ ہے۔ تقسیم ہے فطرت کی۔ البتہ محنت رنگ لا سکتی ہے، اس کی بہت سی مثالیں ہمیں تاریخ سے مل جاتی ہیں۔

رابعہ نے ایک بار انکل عرفان سے پو چھا کہ وہ تو آرٹسٹ بننا چاہتی تھی یا پھر لیکچرار، مگر حالات اسے لکھنے کی طرف لے آئے، تو انھو ں نے کہا یہ خالق کائنات کے کام ہیں۔ اسی کو علم ہے کہ کتنے ڈاکٹرز، کتنے استاد، کتنے فلاسفر چاہئیں۔ اگر نظام کائنات ہمارے ہاتھ میں ہوتا تو ہم اس کو اپنی خواہشات سے بگاڑ دیتے۔ یو ں بھی ربّ نے قلم کی قسم کھائی ہے تو اس کی فضیلت کو سمجھنا چاہئے۔ وہ کہتا ہے غور کرو۔

رابعہ کام یاب والا لفظ تو کیا، ادیب والا لفظ بھی خود کے لیے استعمال نہیں کرتی، کیوں کہ اس کے لیے یہ تنہائی کا وہ تحفہ ہے، جس نے اس کی بے رنگ زندگی میں رنگ بھر دیے ہیں۔ وہ اپنے کتھارسس کے لیے لکھتی رہی۔ ساتھ رہتے رہتے لکھنے سے محبت ہو گئی۔ رابعہ اب نا لکھ سکے تو مضطرب و چڑچڑی ہو جاتی ہے۔ اس کا لڑنے کو دل کرتا ہے، ایسی صورت میں وہ کسی سے بات نہیں کرتی کہ کہیں کچھ بدمزگی نہ ہو جائے. وہ اس سوال کا جواب نہیں دے پائے گی کیوں کہ ”اردو افسانہ عہد حاضر میں” مرتب کرتے ہوئے اس کی ملاقات و بات قریبا چار سو ادیبوں سے ہوئی اور اس میں کام یاب ترین، کام یاب اوسط، کام یاب، ناکام، ہر طرح کے ادیب شامل تھے (یہ ترتیب و الفاظ دنیاوی اعتبار سے استعمال کیے جا رہے ہیں)۔

رابعہ نے اس کتاب کے دیباچے میں اس حوالے سے لکھا ہے:
’’گلو بل اردو قلم نگری کی سیر کرنے کا یہ ایک حسین تجر بہ تھا۔ جس میں گلاب، خار، خاک و آب سب مو جو د تھے۔ مگر کا ئنات اسی کیمسٹری کا نا م ہے۔ بہت محبتیں ملیں، بہت حسن ملا، بہت لب و لہجے ملے، بہت تہذیبیں ملیں، بہت کردار ملے، نت نئی کہانیاں ملیں، درد کے رشتے بنے، خلو ص کے رنگ بکھرے، دور سے نظر آنے والے اونچے قدوں میں، بو نے بھی دیکھے، اور دور سے ہی نظر آنے والے بونوں میں سرو ظرف بھی دکھائی دیے، پھلو ں سے جھکی، گھنے درختوں میں چھپی شاخیں بھی دیکھیں، کا غذی چہرے بھی نظر آئے، چہروں سے اترتے نقاب بھی دیکھے اور ادبی دبستانوں کی مدھر تال پہ کتھک رنگ بھی دکھائی دیا۔ دُنیا اپنے تمام رنگو ں میں میرے پاس مو جود تھی۔ لہذا رابعہ کام یابی نا کامی کو کسی اور سطح اور کسی اور رنگ سے دیکھنے لگی ہے۔

مگر رابعہ کو لگا جو بڑے ادیب کہلائے انھوں نے کچھ لکھا، نہ لکھا، انسانوں سے ان کا برتاو انسانی تھا۔ ظرف بڑا تھا۔
ورنہ وہ طبقہ جو خود کو خود ہی بڑا ادیب تصور کرتا ہے۔ مصنوعی ادیب کا لباس پہنے چہرے پہ مصنوعی سنجیدگی سجائے عام انسان سے بات کرنا اپنی شان عظیم کے خلاف سمجھتا ہے۔ وہ پھر گلہ ہی کر سکتا ہے۔ یا یہی کہہ سکتا ہے کہ اس کا لکھا سمجھا ہی نہیں جا سکتا، کیوں کہ عظمت کی تجریدی سطح کا کام ہے۔ رابعہ نے تو بڑے کردار والے کو بڑا پایا، پست کرداری اعلی تخلیق کو بھی پست کر دیتی ہے۔ یہ سوال بھی زندگی کی طرح گھمبیر ہے۔ جس کا جواب بھی ایک کلیے سے نہیں دیا جا سکتا۔

رابعہ اس حوالے سے احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، منصورہ احمد، مستنصر حسین تارڑ، مشرف عالم ذوقی، گلزار صاحب، سید محمد اشرف، اسرار گاندھی، اشفاق احمد کے کچھ واقعات کبھی شیئر کرنا چاہے گی۔
مگر ابھی نہیں، ابھی تھکن کہہ رہی ہے تمھیں آرام کی ضرورت ہے۔

رابعہ کا اب دل کرتا ہے کسی نئے جہان میں جا بسے کہ جہاں زندگی کے یہ روایتی جھمیلے نہ ہوں۔ رابعہ کی اپنی زندگی اس کے اپنے لیے بھی ہو۔ وہ تو اپنی زندگی روایت کے نام پہ دوسروں کے لیے گزار رہی ہے۔ اور ہم درد مخلصی اس پہ رشک کرتے ہیں کہ کیا ثواب کیا کام ہے۔ معلوم نہیں ثواب کا کھاتا کیا ہے، مگر انسان کی فطرت گناہوں کی طرف بھی تو مائل ہوتی ہے۔ جس کا بوجھ اپنے کاندھوں پہ اٹھا رکھا ہے۔

اسے نہ ثواب سے غرض، نہ گناہ سے؛ بس سکون و تنہائی و گوشہ نشینی کچھ عرصے کے لیے درکار ہے، کہ وہ سانس لے سکے۔ اک نیا سانس۔۔۔ کہ جس کی فضا کچھ اور ہو۔
رابعہ خواہشات کے اظہار کے ساتھ، یہی سوال درویش سے کرتے ہوئے شب بخیر کہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).