مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا


پاکستانی عوام یا اس علاقے کے عوام جو موجودہ پاکستان کی اکژیت تھے، تقسیم کے وقت ایسے مذہبی انتہا پسند نہیں تھے؛ مگر ان کے مذہبی جذبات ابھار کر سیاسی بیانیے کو مذہبی جامہ پہنا دیا گیا۔ ہمارے عوام تقسیم کے بعد بھی کچھ ایسی شدّت پسند نہ تھے، مگر چند سیاسی اور عسکری رہنما گاہے گاہے کچھ ایسے بیج بوتے گئے جو آج قد آور درخت بن چکے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ عاطف میاں کی تقرری کے ضمن میں دیکھا گیا۔

صورتِ احوال کچھ یوں بنی کہ آج کے شدّت پسندوں کا موقف ہٹلر سے ملتا جلتا نظر آ رہا ہے، کہ احمدیوں کو زندیق کہہ کر اگر جان سے نہ بھی مارا جائے تو ان کے گلے میں ایسی شناختی علامت ضرور لگا دی جائے جو دور سے ان کی موجودگی کا اعلان کر دے۔ حسبِ توفیق عامتہ النّاس ان کا ناس مار کر اپنے جذبہ ایمانی کو وقتاً فوقتاً تازہ کرتے رہا کریں۔ ابھی قتال کی فرضیت پر چھڑی بحث اور خلافت کے دورِ زرّیں کی آہیں بھرتے لوگ رہی سہی جمہوریت کو مزید اسلامی بنانے میں لگے ہیں۔

موقف ہمیشہ کی طرح تضادات کا مجموعہ ہے۔ قادیانی غیر مسلم ہیں اس لیے وہ اقلیت میں ہیں، لیکن وہ خود کو چوں کہ مسلم کہتے ہیں، اس لیے وہ اقلیت کیسے ہو سکتے ہیں۔ در اصل وہ آئین نہیں مانتے تو وہ شہری ہی نہیں ہیں۔ چلیں بات ہی ختم ہوئی؛ اب ایسا کرتے ہیں ان کو یہود و ہنود کی سازشوں میں آلہ کار ہونا ثابت کر دیتے ہیں۔ پھر کرنل رفیع صاحب کی یادداشت پر اب کون بحث کر سکتا ہے اگر وہ خود صوبیدار بھی نہ ہوا ہو۔

پاکستان کا دوسرا طبقہ آزاد خیال طبقہ ہے جو کسی بھی آزاد خیالی کی بین الاقوامی تعریف کے مطابق کچھ ایسا آزاد خیال بھی نہیں، مگر پاکستانی تناظر میں شدید آزاد خیال اور لبرل ہے کہ وہ مذہب کو ریاست سے علیحدہ کرنے کا خواہش مند ہے۔
؎ میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں

ان کی مملکتِ خداداد میں موجودگی آٹے میں نمک برابر ہے، کیوں کہ ان کی یہ سوچ ہی پاکستانی معیار کے مطابق ناپاک ہے کہ مذہب اور ریاست کا ایک دوسرے میں عمل دخل ضروری نہیں۔ اس تناظر میں بدقسمتی سے ان کے خیالات بھی بہت نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے۔

پاکستان کا تیسرا اور اکثریتی طبقہ وہ ہے جس کی نظر میں عاطف میاں کی تقرّری کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس پر آسمان قہر کے گولے برسانا شروع کر دے اور نا ہی یہ کفر اور باطل کی جنگ بن جانی چاہیے نیز یہ کہ احمدی مشیر سے کسی مذہب پر یا آئین ماننے نا ماننے سے فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ وہ اصل طبقہ ہے جس کا تناسب شاید اچھے وقتوں میں 90-85% ہوا کرتا ہو گا، اب گھٹ گھٹ کر 60-70% پر شاید رہ گیا ہے، مگر ہنوز اکثریتی طبقہ ہے۔

ملک کے قابلِ ذکر سیاستدان بھی اسی طبقے کے نمایندہ ہیں، جیسے پچھلے دور میں میاں صاحب یا ابھی خان صاحب جنھوں نے عاطف میاں کو جانتے بوجھتے مشیر لگایا۔ یہ وہ پاکستان تھا جو ستر کی دہائی میں ایسا بدلا جو ہر دہائی میں کم ہوتے ہوتے آج 60% تک گھٹ کر رہ گیا لگتا ہے۔ اب ایک اہم مسلہ یہ کہ سیاست دان صرف اپنی سیاست (یا سیاہ ست) سے اس عام فہم معاملے کو حسّاس بنا رہے ہیں۔ خان صاحب نے یہی کام رضوی صاحب کی حمایت کر کے کیا تھا، وہی آج مشاہد اللہ‎ جیسے سینیٹ میں کر رہے ہیں۔

عاطف میاں کی تقرری تو منسوخ ہوئی، مگر اس سے جہاں طبقہ نمبر ایک نے شادیانے بجائے وہیں سوال یہ ہے کہ کیا اس سے نیا پاکستان اور تبدیلی پنکچر نہیں ہو گئی اور کیا وہ بدلاو جو اعتدال پسند طبقے میں گزشتہ چار دہائیوں سے بتدریج آ رہا ہے، کیا وہ اور مہمیز نہیں ہو گا؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا، جہاں سیاست دان اپنے ایک پاونڈ گوشت کے لیے پوری گائے ذبح مت کریں؟ گزشتہ حکومت تو چلیں اپنے مسائل میں پہلے ہی غرق تھی، جب خان صاحب نے موقع پرستی دکھائی پر آج جب کہ عسکریت اور جمہوریت کا یہ ملن ہنی مون پیریڈ منا رہا تھا، ایک بہترین موقع تھا وزیرِ اطلاعات کی طرح ڈٹے رہنے کا مگر افسوس اب سرمد شہید کی زبانی یہی کہا جا سکتا ہے۔
؎ شورے شدو از خواب عدم چشم کشودیم
دیدم کہ باقیست شب فتنہ غنودیم
( سرمد )
ہنگامے کے شور پہ خوابِ عدم سے آنکھ کھلی
جاگ کے بھی سو رہے جو شبِ فتنہ ہی باقی دکھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).