یاد رکھنے کے بہانے



خواجہ محمد ذکریا نے جن صاحبان کی آنکھیں دیکھی ہیں، جن سے پڑھا اور سیکھا ہے، فیض حاصل کیا ہے۔ اب ان کی مثال ملنی مشکل ہے۔ یہ نری قنوطیت کا اظہار نہیں، حقیقت کا اعتراف ہے۔ تعلیمی میدان میں ہم مسلسل زوال آمادہ ہیں اور کہا نہیں جا سکتا کہ پستی کی یہ رو کہاں جا کر تھمے گی۔

زکریا صاحب کے کئی پہلو قابلِ ذکر ہیں۔ وہ اچھے استاد ہوں گے۔ اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔ اکبر الہٰ آبادی پر جو کتاب انہوں نے لکھی ہے، اسے ان کا سب سے وقیع کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں جہاں اور بہت سے معاملے سامنے آئے ہیں، وہاں اکبر کی خانگی زندگی کے بعض ایسے گوشوں کا انکشاف بھی ہوا ہے، جو کسی اعتبار سے خوشگوار نہیں۔ یہاں کسی شاعر یا ادیب کی نجی زندگی اور اس کے شعری یا ادبی کارناموں کو خط ملط کرنا مقصود نہیں۔ یہ سعی لا حاصل ہو گی۔ عین ممکن ہے کہ کوئی فرد اخلاقی طور پر ناپسندیدہ قرار پائے، لیکن اس کی تخلیقی سطح بلند ہو۔ اسی طرح کوئی نہایت بھلا آدمی معمولی شاعر یا ادیب ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ معاملات خیر و شر سے ماورا ہیں۔ جو معلومات خواجہ صاحب کی کتاب کی وساطت سے سامنے آئیں، ان سے اکبر کے شاعرانہ کمال پر کوئی حرف نہیں آتا۔ بس تھوڑا سا ملال ہوتا ہے۔

ایک ارادت مند، آصف علی چٹھ نے خواجہ زکریا کی بہت سی منتشر تحریروں کو کتابی صورت میں یکجا کر دیا ہے۔ ایک اچھا بھلا مجموعہ وجود میں آ گیا ہے۔ کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں متعدد ایسے حضرات کا ذکر ہے جن کو ذاتی طور پر جاننے والے اب خال خال ہوں گے۔ اس میں بھی شک ہے کہ ان پر آیندہ کوئی خاص توجہ دی جائے گی۔ شخصیت پر لکھنے کے اہل کہاں سے آئیں گے؟ جن لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہی نہ ہوا ہو، ان پر کوئی کیا لکھے گا، کیسے لکھے گا؟ دوسرے یہ کہ ان کا ادبی مرتبہ ایسا نہیں کہ انہیں مدتوں یاد رکھا جائے۔

کم از کم خواجہ صاحب ان سے واقف تھے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں انہوں نے شائستہ انداز میں اظہارِ خیال کیا ہے۔ ممکن ہے ان میں سے بعض اصحاب کا مزید کچھ احوال اس آپ بیتی میں آ جائے جو خواجہ صاحب ان دنوں لکھ رہے ہیں۔

پہلے حمید احمد خاں کو لے لیجیے۔ وہ 1974 میں فوت ہوئے تھے۔ اس بات کو پچاس سال ہونے کو آئے۔ غالب پر ان کا کام توجہ طلب ہے، لیکن اگر اسے یکجا نہ کیا جائے اور مسلسل دستیاب نہ ہو تو کتنے لوگ انھیں یاد رکھیں گے؟ ڈاکٹر وحید قریشی کی لیاقت میں شبہہ نہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے بہت سا وقت ایسی سرگرمیوں میں ضائع کر دیا، جن کو کبھی یاد نہیں رکھا جاتا۔ غلام حسین ذوالفقار اور افتخار احمد صدیقی کو بھی بھلا دیا جائے گا۔ نذیر احمد دہلوی پر افتخار صاحب کی کتاب قابل قدر ہے۔ افسوس ہے کہ ضعیف العمری میں ان کو شدید صدمہ اٹھانا پڑا۔ ان کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا۔ بقول خواجہ صاحب ”زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پولیس قاتلوں کے قریب پہنچ گئی لیکن سب بچ گئے اور کسی کا مواخذہ نہ ہوا۔ ‘‘ یہ پاکستان میں ہوتا ہی آیا ہے۔ اس سانحے کے بعد افتخار صاحب کا ذہنی توازن بگڑا اور اتنا بگڑا کہ ان پر دیوانگی سی طاری رہنے لگی۔

یہ تو ہوئے اساتذہ جن سے خواجہ صاحب کا قریبی تعلق رہا۔ جعفر طاہر، شیر افضل جعفری، علاء الدین کلیم، مرزا منور اور حفیظ تائب پر ان کے مختصر مضامین بھی کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان حضرات کو جاننے والے بھی اب کم ہی رہ گئے ہوں گے اور ان کی شاعری اور دیگر تصانیف کا دوبارہ چرچا ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ تائب صاحب کو البتہ ان کے نعتیہ کلام کی وجہ سے، اغلب ہے، یاد رکھا جائے گا۔

بعض مضامین ایسے شعراء پر ہیں، جن کا ذکر یا ہوتا نہیں یا کم کم ہوتا ہے۔ اکبر الہٰ آبادی کے استاد وحید الہٰ آبادی کے کلام کا کیسے جائزہ لیا جائے کہ ان کا دیوان، جو تیئس ہزار اشعار پر مشتمل ہے، گو محفوظ ہے لیکن شائع نہیں ہوا اور نہ اس کے شائع ہونے کی امید ہے۔ اسی طرح شادعارفی بھی رفتہ رفتہ فراموشی کی دہلیز کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ریاض احمد کو بھی، جو شاعر بھی تھے اور نقاد بھی، تقریباً بھلا دیا گیا ہے۔

صدیق جاوید پر مضمون لکھ کر خواجہ صاحب نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔ لیکن کسی اور کو صدیق جاوید پر لکھنے کی توفیق ہو گی؟ مشفق خواجہ کا خاکہ دلچسپ ہے۔ مشفق خواجہ بڑے باصلاحیت تھے۔ ان کا پُر لطف کالم، جو وہ ”خامہ بگوش‘‘ کے نام سے لکھتے تھے، پاکستان اور بھارت میں یکساں طور پر مقبول تھا۔ ان کا مختصر مجموعۂ کلام ”ابیات‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ شاعری کے میدان میں ان کے جوہر خوب نمایاں ہوئے تھے۔ شاعری ہی کو انھوں نے بلاوجہ، بالائے طاق رکھ دیا۔ عمر عزیز کا بڑا حصہ یگانہ کو ایڈٹ کرنے میں برباد کیا۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے پوچھا بھی کہ یگانہ کو آپ واقعی اتنا اہم گردانتے ہیں؟ کہنے لگے کہ ”میں ایڈیٹنگ کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرنا چاہتا تھا۔ ‘‘ اس جواب کو تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے ’جائزۂ مخطوطات اُردو‘ کی بھی صرف پہلی جلد ہی شائع ہوئی۔ علاوہ ازیں خود ان کا کہنا تھا، ان کے پاس ہزاروں فوٹو، ہزاروں خطوط اور سیکڑوں ادیبوں اور شاعروں کا غیر مطبوعہ کام اور کلام موجود ہے۔ خدا جانے اس بیش بہا ذخیرے کا کیا حشر ہوا۔

مضامین کتاب میں اور بھی ہیں اور ان کا تنوع قابلِ ذکر ہے۔ ایک موضوع زیادہ تفصیل کا متقاضی تھا، جس کا عنوان ”محمد حسن عسکری کے تنقیدی مزعومات‘‘ ہے۔ عسکری صاحب کی ذہانت اور فراست شک و شبہہ سے بالاتر ہے، لیکن کسی نقاد کو ایسے بلند مقام پر پہنچا دینا، جو ان کے معتقدین کرتے آئے ہیں کہ وہ تنقید سے ماورا نظر آنے لگے، صحت مندانہ رویہ نہیں۔ عسکری صاحب کے علمی اور تنقیدی سرمائے کا بے لاگ اور مفصل جائزہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب نے موضوع کو اِدھر اُدھر سے چھُو کر چھوڑ دیا ہے۔

خواجہ ذکریا صاف ستھری نثر لکھتے ہیں۔ وہ اُردو کے ان چند اساتذہ میں سے ہیں، جن سے مل کر خوشی ہوتی ہے۔ مزاج میں کچھ شوخی ہے، جو گراں نہیں گزرتی۔ مگر مضامین میں بالعموم سنجیدہ ہی نظر آتے ہیں۔ ان کی آپ بیتی کا ہم سب کو انتظار ہے۔ کہتے تو وہ یہی ہیں کہ انہوں نے جو بھی لکھا ہے سچ لکھا ہے۔ کسی کا لحاظ نہیں کیا۔ کاش کہ ایسا ہی ہو۔
تاثراتی اور تنقیدی تحریریں از ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا
ناشر: سنگت پبلشرز، لاہور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).