کام یابی کا تیر بہ ہدف نسخہ


ایک بار میں نے ٹیلے ویژن کے ایک معروف اداکار سے پوچھا، کہ کام یابی کے حصول کا کوئی نسخہ ہے، جس پر عمل کر کے یقینی طور پہ کامران ہوا جا سکے؟ یہ سوال کرتے میرے ذہن میں تھا، کہ وہ کہیں گے:
”نہیں! بالکل بھی نہیں۔ کام یابی کا کوئی فارمولا نہیں ہے، جس پر عمل کر کے لا محالہ کامران ہوا جا سکے“۔
مجھے حیرت اُس وقت ہوئی، جب اُنھوں نے کہا۔
”یقینا! ہے؛ کام یابی کا نسخہ ہے“۔

”کیا“؟ میں اپنی بے تابی چھپا نہ سکا۔
”آپ نے کبھی تانگے میں جتا گھوڑا دیکھا ہے“؟
میرے جواب کا انتظار کیے بہ غیر اُنھوں نے اپنی بات جاری رکھی۔

”آپ نے دیکھا ہو گا، کہ گھوڑے کی آنکھوں پہ کھوپا چڑھا ہوتا ہے۔ نہ وہ دائیں دیکھ سکتا ہے، نہ بائیں۔ وہ صرف سامنے دیکھ سکتا ہے۔ اُس کی نظر اپنے راستے پہ ہوتی ہے۔
یہ کہتے انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی کنپٹیوں پہ یوں رکھ لیے، کہ دائیں بائیں کا منظر چھپ گیا۔
”بس! ایسے ہی اپنی آنکھوں پہ کھوپا چڑھا لیں۔ اپنے ٹارگٹ پہ نظر رکھیں۔ نہ دائیں دیکھیں، نہ بائیں۔ آپ منزل پہ پہنچ کے رہیں‌ گے۔ کام یاب ہو جائیں گے“۔

کامی یابی کا نسخہ کیا ہے؟ اس سے بہ ترین سبق کیا ہو سکتا ہے، جو اس اداکار نے دیا۔ جب کوئی اپنی منزل کا تعین کرتا ہے، تو راہ کے دائیں بائیں بہت سی چراہ گاہیں آتی ہیں۔ ہریالی دیکھ کے من للچاتا ہے، کہ اِس باغ کو بھی دیکھ لیا جائے۔ ٹھنڈے میٹھے چشمے متوجہ کرتے ہیں۔ ان میں اتنی دیر ہی ٹھیریں کہ زاد راہ لیں۔ اُس چمن میں دیر تلک بسیرا نہ کریں۔ اُس گل زار میں بھٹک کہ کہیں راستہ نہ کھوٹا کرلیں۔ پھر یہ ہے کہ گلشن میں زیادہ دیر ٹھیر لیں، تو اس کی یاد ساتھ ہو لیتی ہے۔ یادوں کو ساتھ لے کے چلنے سے بوجھ بڑھتا ہے۔ بوجھ بڑھ جائے تو قدم بوجھل ہو جاتے ہیں؛ تھکن آ لیتی ہے۔ منزل دُور لگنے لگتی ہے۔ پھر یہ بھی ممکن ہے، مسافر افسوس کرے، کہ راستے میں جو دل کشی چھوڑ آیا ہے، ہائے کاش! اُسی کو منزل کرتا۔ ایسا احساس گہرا ہو تو جانیے غلط منزل کا تعین کیا گیا ہے۔

کام یابی ہے کیا؟ اس کو سمجھنے کے لیے پہلے اس کی تعریف بیان کی جانی چاہیے۔ ہر ایک کے لیے کام یابی کی مختلف تعریف ہو سکتی ہے۔ میں کام یابی کو کیا سمجھا ہوں، اِس تمثیل سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مثال کے طور پہ کوئی اداکار بننا چاہتا ہے، خوب محنت کرتا ہے، فن میں مہارت حاصل کرتا ہے، اُسے ٹی وی کمرشل کی آفر ہوتی ہے؛ یہاں سے اُس کا ماڈلنگ کیریئر بن جاتا ہے، اب وہ جانا پہچانا ماڈل ہے؛ اداکاری کہیں بیچ میں رہ جاتی ہے، تو میری نظر میں ایسا شخص نا کام کہلائے گا۔ ہو سکتا ہے وہ ماڈلنگ سے اتنی رقم کما لے، شہرت پا جائے، جتنی اداکاری سے نہ کما سکتا ہو، پھر بھی اُسے کام یاب نہیں کہیں گے؛ کیوں کہ پیسا اُس کا ہدف نہیں تھا؛ سو دولت کمانا کام یابی کی تعریف نہ ہوئی۔

کوئی ادیب بننا چاہتا ہے، یا پینٹر، یا موسیقار۔ وہ تمام عمر ادب کے لیے وقف کرتا ہے، پینٹنگ کرتا ہے، یا موسیقی کی خدمت کرتا ہے، چاہے وہ تمام عمر کرائے کے گھر میں رہا ہو، گاڑی نہ رکھتا ہو، برانڈڈ اشیا نہ خریدتا ہو؛ اور اسے زیادہ لوگ بھی نہ جانتے ہوں۔ اگر وہ اپنے کام سے جڑا ہے، تو وہ کام یاب شخص ہے۔ ہو سکتا ہے آپ حیران ہوں، کہ یہ میں کیا کَہ رہا ہوں۔ نہ بنگلا بنایا، نہ گاڑی خرید سکا، نہ شہرت ملی۔ آپ کو کام یابی کی یہ تعریف عجیب لگتی ہو، تو میں چاہوں گا، کہ آپ ذرا کے ذرا یہاں ٹھیر جائیں اور اِس ”نکتے“ کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ ٹھیک ہے، کہ تن کے لیے دھن کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کتنی دولت؟ انسان کو جینے کے لیے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کتنا سرمایہ چاہیے؟ اتنا تو کمانا ہی چاہیے۔ خواہشیں تو نہ ختم ہونے والی حسرتوں کا نام ہے۔ آنکھ پہ کھوپا نہ چڑھایا، تو اِدھر اُدھر کی دِل کشی بہت متوجہ کرے گی۔

پھر یہ بھی ممکن ہے، کہ انسان بے بہا سرمایہ اکٹھا کر لے، اور اُس کی تمنائیں نا تمام ہوں، ممکن ہے اس کو ایسی دھن دولت بے کار لگتی ہو۔ سرمائے سے بہت کچھ خریدا جا سکتا ہے، یہ بھی ہے کہ سب کچھ نہیں خریدا جا سکتا۔ ہاں! وہ شخص جس نے دولت کمانے کو اپنا ہدف بنایا ہو، اُسے رُپے پیسے ہی کو پیمانہ کرنا چاہیے، کیوں کہ اُس کا ٹارگٹ رُپیا پیسا ہے۔ جو شہرت کا متمنی ہے، وہ کسی بھی شعبے میں نام کما لے، شہرت پا جائے، وہ کام یاب ہوا، کہ اُس کا مقصود شہرت ہے۔ ایسا شخص پیسا نہ کما سکے تو اسے نا کام کہا جا سکتا ہے۔ پہچان نہ بنا پائے تو نا کام ہوا۔ لیکن جس کا ہدف پیسا نہیں، اُسے کیوں‌ دولت کے پیمانے سے پرکھیں۔ ہم میں سے بہت ہیں، جو دوسروں کی کام یابی و نا کامی کی تعریف اپنے طے کیے پیمانے سے کرتے ہیں۔ غلط کرتے ہیں۔ ہر شخص خود جانتا ہے کہ وہ کام یاب ہے کہ نا کام؛ کوئی دوسرا اُس کی نا کامی و کام یابی کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔

تو کام یابی یہ ہوئی، کہ آپ نے ہرن پہ تیر چلایا؛ تو ہرن ہی شکار کیا۔ اُس تیر کی زد پہ شیر آ گیا، تو سمجھیے آپ کا نشانہ خطا گیا، چاہے کوئی آپ کی کام یابی کا کتنا بھی ڈھول پیٹے لیکن آپ جانتے ہیں، آپ نا کام ہوئے ہیں۔ چاہے آپ کو شیر کی قیمت ہرن سے زیادہ ملی ہو، مگر آپ ہی جانتے ہیں کہ آپ نا کام ٹھیرے ہیں۔ شکار اور تیر کمان کے ذکر سے مجھے بچپن میں پڑھی ایک کہانی یاد آ گئی۔ یہ قصہ مجھے ویسا تو نہیں یاد، جیسا پڑھا ہو گا، لیکن اس کا مفہوم یہی ہے۔

ایک گرو اپنے چیلوں کو ”دھیان“ لگانے کی تربیت دے رہے تھے۔ تربیت کے دوران امتحان لینے کو گرو نے سب کے ہاتھ میں تیر کمان دیا، اور کہا کہ وہ سامنے درختوں کے جھرمٹ میں توت کی شاخ پر بیٹھی چڑیا کی آنکھ کا نشانہ لو؛ تابع فرمان چیلوں نے گرو کے حکم کے انوسار کمان پہ تیر چڑھائے اور ”دھیان“ لگایا۔ گرو نے ایک چیلے سے پوچھا، کہ کیا دکھائی دے رہا ہے؟ چیلے نے جواب دیا۔

”درختوں کے جھرمٹ میں توت کا درخت، اُس کی ایک شاخ پر بیٹھی چڑیا اور اس کی آنکھ“۔
گرو کو مایوسی ہوئی۔ اب اُس نے دوسرے چیلے سے وہی سوال کیا۔ جواب ملا۔
”توت کے درخت کی ایک شاخ پر بیٹھی چڑیا اور اس کی آنکھ“۔

گرو اس سے بھی مطمئن نہ ہوئے۔ اب تیسرے چیلے کی باری تھی، کِہ گرو کے سوال کا جواب دیتا۔
”تو بول، تجھے کیا دکھائی دیا“؟
”شاخ پر بیٹھی چڑیا کی آنکھ“۔

گرو کی تسلی نہ ہوئی۔ چوتھے سے سوال کیا۔
”تجھے کیا دکھائی دیا“؟
چیلا جس کا پورا دھیان ہدف پہ تھا، اُس نے کہا۔
”آنکھ“۔
گرو خوش ہو گئے، کہ یہ چیلا اُن کی تربیت کو صحیح پہنچا ہے۔

کام یابی کی تپسیا ہے، کہ ہدف ذہن و نظر میں ہو؛ ایسے کہ نہ درخت دھیان میں رہیں، نہ درخت کی شاخیں، اور نہ چڑیا دھیان میں‌ رہ جائے۔ دھیان ہو تو فقط آنکھ پر۔ یہی دھیان کی انتہا ہے۔ دھیان لگا کے بیٹھنے والے کا دھیان بٹانے کو اپسرائیں بھی اترتی ہیں، کہ اُس کو منزل سے دُور کریں۔ جو اپسراوں کے دام میں آ جائیں، اُنھیں نئے سرے سے دھیان لگانا پڑتا ہے۔

گرو کا قول ہے، کوئی بھی ہدف یک دم سے نہیں حاصل ہوتا۔ اور اُن کا یہ بھی فرمانا ہے، کام یابی کا تیر بہ ہدف نسخہ، مسلسل ریاض؛ دھیان؛ لگاتار سفر ہے؛ زینہ بہ زینہ طے کرتے جائیں؛ ہر زینہ حاصل ہے۔ غیر معروف معنوں میں منزل کہیں نہیں ہوتی۔ اپنی راہ چلتے رہنا ہی کام یابی ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran