وادی گوسر سے جاہلر لیک ویو پوائنٹ


اور ہم کہاں تھے ؟ ممتاز ناظر نے ہمیں سرگودہا سے ساتھ لیا اور ہم پہنچے جوہر آباد۔ جہاں ہنستے مسکراتے دانش بٹ ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔ بٹ صاحب ٹریک پر ساتھ ہوں تو بہت اچھا لگتا ہے ۔ جوہر آباد سے چلے تو ہمارا ٹھکانہ خالق آباد تھا جہاں ملک عالمگیر رضا پرنسپل ہائر سیکنڈری سکول ناشتہ تیار کرائے ہمارا انتظار کر رہے تھے ان سے کافی دلچسپ گپ شپ ہوئی ۔ وہاں سے نکلے تو براستہ کٹھوائی ہم وادی گوسر پہنچ گئے ۔ سب سے پہلے پہنچنے والے ہم ہی تھے ۔ وادی گوسر بہت وسیع و عریض میدان کی صورت ہے جہاں کہیں ہرے بھرے کھیت ہیں تو کہیں سرسبزمیڈوز ہیں ۔ ہم یہاں فروری میں آئے تھے تو ہر طرف سنہرے لینڈ سکیپ تھے جو اب موسم گرما کی بارشوں کے بعد سرسبز لینڈ سکیپ میں تبدیل ہو چکے تھے ۔

کچھ ہی دیر میں نوشہرہ سے ٹریکرز کی آمد شروع ہوئی پانچ بائیکس پر چنیوٹ رائڈرز، قمر اور احسان عدنان احسن کی گاڑی کو گھیرے میں لئے ہوئے آئے ۔ ان کے پیچھے پیچھے ذوالفقار صاحب اور احسن بلال کمانڈر عدنان عالم کے ہمراہ پہنچے ۔ جنگل میں منگل کا سا سماں ہو گیا ۔ ایک دوسرے ملے ، نئے دوستوں کا تعارف کرایا گیا ۔ مختصر سی گپ شپ لگی ۔ جو سامان رات کی ٹریکنگ کے لئے تھا وہ گاڑیوں میں ہی چھوڑ دیا گیا ۔ باقی سامان کے ساتھ ٹریکنگ کو چلے ۔

گوسر کے جنوبی سمت اونچی پہاڑیاں ہیں ۔ ممبران کو بتایا گیا کہ ہم نے ان سب میں سے اونچی پہاڑیوں کو سر کرنا ہے ۔ اب تک آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے جونہی ہم نے اپنا ٹریک شروع کیا بادل غائب ہونا شروع ہو گئے اور کچھ ہی دیر میں تیز دھوپ ہر طرف چمک رہی تھی ۔عدنان بھائی نے مجھے کہا کہ گرمی بہت ہے اگر ہم لمبا راونڈلگا کر اوپر گئے تو سب کی بس ہو جانی ہے اس لئے روٹ تھوڑا سا تبدیل کر لیتے ہیں چنانچہ  پروگرام تھوڑا تبدیل ہوا ۔ ایک شارٹ کٹ تلاش کیا گیا جس پر چلتے ہوئے بلندپہاڑوں کو بھی سر کر سکتے تھے اور چند گھنٹے عمدہ ہائیکنگ بھی کر سکتے تھے ۔ عدنان بھائی نے سب ممبران کو وارننگ دی کہ اپنے پاس پانی کی مناسب مقدار رکھی جائے کیونکہ گرمی بہت ہے ۔

ادھر اودھر پھیلی سبز گھاس اور جھاڑیوں کے اندر سے گزرتے ہوئے ہم نے اپنی بیسویں ٹریکنگ شروع کی ۔ بیس کے قریب گروپ ممبر بہت جلد ایک دوسرے سے گھل مل گئے ۔ ایک دوسرے کا تعارف ہونے لگا ۔ یونہی کچھ دیر چلے تو ہم تنگ درے سے گزر کر ہم ایک اور وسیع وادی میں آن پہنچے ۔ یہاں پر ہر طرف گھنے درخت تھے کہیں کہیں مویشی بھی چر رہے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ کوئی رہائشی ڈیرہ قریب ہے ۔ یہیں ہم نے بہتے پانی کو دیکھا قریب سے ہی کوئی چشمہ پھوٹ رہا تھا ۔ ہم جنگل کے اندر سے گزرتے چلے گئے ۔ ہمارے سامنے ہی دیوار کی مانند پھیلا ہوا وہ بلند پہاڑ تھا جس کو ہم سر کرنے نکلے تھے ۔ گپ شپ لگاتے ، فوٹو گرافی کرتے ہم تھوڑا پیچھے رہ گئے تھے اچانک ہمیں ٹریکر کہیں رُکے ہوئے دکھائی دیئے یہ درختوں کا ایک جھُنڈ تھا ۔ ہم یہاں پہنچے تو ڈیرہ کے میزبان احمد خان سبھی ٹریکرز کو خوش آمدید کہہ رہے تھے انہوں نے فوراً سب کو پانی پلایا ۔ یہاں درختوں کی چھنی چھاؤں میں ٹریک بہت خوش تھے ۔ احمد خان نے مہمانوں کو ڈیرے کے دوسری طرف چارپائیوں پر بیٹھنے اور چائے پلانے کی دعوت دی ۔ چائے کی دعوت پر تو نہیں البتہ چارپائیوں کی کشش نے سب کو وہاں کچھ دیر کے لئے ڈیرہ لگانے پر مجبور کر دیا ۔ اور یہاں واقعی بہت گھنی چھاوں تھی ۔ سکوت تھا ۔ پرندوں کی چہچہاہٹ تھی ۔ نیاز نے اپنے بیگ سے سیب نکالے اور سب کی خدمت میں پیش کئے ۔ کچھ دیر خوش گپیاں لگائی گئیں ۔ احمد خان نے بتایا کہ یہاں سور بہت ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں اس کے چار بکرے بھی مار ڈالے ۔ ممتاز بھائی نے بہت جلد اپنے ارد گرد مجمع لگا لیا ۔ ان کی باتیں اور شخصیت ایسی تھی کہ سبھی دوست ان کی جانب متوجہ ہو جاتے ۔ کچھ ہی دیر میں ٹریکر ایسے مست ہوئے کہ بھول ہی گئے کہ ہم نے تو بلندیوں پر جانا ہے ۔ بہت دلکش مناظر دیکھنے ہیں ۔

بابا احمد خان نے ہمارے ساتھ چلنے کی حامی بھری اور ہمیں بتایا کہ وہ ایک بہت ہی آسان رستے سے ہمیں پہاڑ کی چوٹی تک لے جا سکتے ہیں ہمیں اور کیا چاہئے تھا ۔ سو ہم وہاں سے چلے مکئی کی فصل تیار تھی اس کی خوشبو سونگھتے ہم آگے بڑھتے چلے گئے ۔ ہرطرف ہریالی ہی ہریالی تھی اور ہمارے ٹریکروں کی گپ شپ تھی ۔ کچھ آگے کھجور کا ایک تنہا درخت کھجوروں سے لدا پھندا دعوت نظارہ دے رہا تھا ۔ کسی گاوں کے نزدیک ہوتا تو اس پر ایک کھجور بھی نہ باقی بچتی ۔ یہاں سے چلے تو دل خوش ہو گیا دو نوجوان سکول یونیفارم پہنچے سکول سے واپس گھر کو آ رہے تھے یہ جاہلر میں پڑھتے ہیں ۔ سرد صبحوں اور تپتی دوپہروں میں پیدل چلتے ہوئے  ایک گھنٹے چل کر سکول جاتے اور واپس آتے ہیں ۔

 اتنی بلندی پر یہ وادی اب بھی بہت وسیع و عریض اور ہری بھری دکھائی دیتی تھی ۔ پرانے زمانے کے بزرگوں کے بہت ہی محنت سے ہموار کئے گئے کھیت اب ویران پڑے تھے ۔ آج کے کسان میں وہ ہمت ہی نہیں رہی کہ وہ کھیتوں میں کوئی فصل ہی کاشت کر سکے ۔ وادی میں بیشتر کھیت یونہی ویران ہیں ۔ کھیتوں کے کنارے پٹی سے گزرتے ہوئے ہم نے پھر ایک موڑ کاٹا اور پھر سے پہاڑی رستوں پر چلنا شروع کیا ۔ کھیتوں سے آگے بہت خوب صورتی سے جُڑے پتھروں کی ایک دیوار تھی جو مغرب سے مشرق کو جا رہی تھی شائد جاہلر کے رقبے کو کفری سے جدا کرنے کے لئے یہ دیوار بنائی گئی ہو گی ۔

 یہاں سے تھوڑا آگے چلے تو سامنے ہی وادی جاہلر کا  دلکش منظر سامنے تھا ۔ بابا احمد خان نے کمال مہارت سے ہمیں تھکائے بغیر بہت ہی آرام سے اس پہاڑی چوٹی تک پہنچا دیا تھا جہاں سے ہم پوری جاہلر جھیل اور میلوں تک پھیلی ہوئی وادی کو دیکھ سکتے تھے ۔ جاہلر کے مشرقی سمت کٹی پھٹی سی جگہ ہے جیسا کہ پوٹھوہار میں دکھائی دیتی ہے روایت ہے کہ صدیوں پہلے یہاں جنوں بھوتوں کی ایک خوفناک جنگ ہوئی تھی جس کی وجہ سے یہاں کی زمین میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ گئیں

اس کے بعد وسیع و عریض کھیت ہیں پھر جاہلر گاؤں اور اس کے مغرب میں گول پیالے کی مانند جاہلر جھیل ہے ۔ وادی سون کی دیگر دو بڑی جھیلوں سے کچھ کم وسعت لئے یہ ایک دلکش منظر پیش کرتی ہے جہاں موسم سرما میں وسط ایشیا سے آنے والے پرندے قیام کرتے ہیں ۔ عجب ہے کہ وادی سون کی تہذیب صدیوں پرانی ہونے کے باوجود یہاں کوئی دیو مالائی کہانی مشہور نہیں ہے سیف الملوک جیسی کوئی کہانی کسی جھیل سے وابستہ نہیں ہے شائد یہاں کی جھیلوں میں پریا ں نہانے نہیں آیا کرتی تھیں ۔ جہاں جنوں بھوتوں کا ڈیرہ ہو وہاں پریاں کیوں آنے لگیں ۔ آج بھی وادی سون میں کوئی پری ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ یہاں کی ثقافت صرف اور صرف مردوں کے گرد گھومتی ہے وادی سون کے زیادہ تر مرد اعلیٰ درجے کے لباس کے اوپر بڑی سی پگڑی باندھے داروں پر حقہ پیتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ وادی کی محنت کش خواتین مویشیوں ، بھیڑ بکریوں کو چارہ ڈالتے اور کھیتوں میں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4