وادی گوسر سے جاہلر لیک ویو پوائنٹ
وادی سون کے فطرت سے قریب مناظر سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں ایسے مناظر کو دیکھنے کے لئے سیاح شمال کا رخ کرتے ہیں وادی سون بھی دلکشی میں اپنی مثال آپ ہے ۔ ہم سب ٹریک اونچی چٹانوں پر بیٹھے جاہلر جھیل کو دیکھے جا رہے تھے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے موسم کی شدت کو معتدل بنا دیا تھا ۔ سبھی خوش اور مطمئن تھے وہ جو دیکھنے آئے تھے دیکھ چکے تھے ۔ ٹریکر یہاں کافی دیر بیٹھے محظوظ ہوتے رہے ۔ بہت سی تصاویر بنائی گئیں ۔ نیچے وادی میں جاہلر جھیل کا دلکش منظر تھا اس سے کچھ اوپر کھیتوں کی کی ایک دلچسپ ترتیب ان کو خوب صورت بنا رہے تھے ۔ انہی خوش گپیوں میں کافی وقت گذر گیا ۔ نیاز نے مزید سیب نکال کر سب کی خدمت پیش کئے ۔ پانی کی جتنی بوتلیں تھیں سب خالی ہو گئیں ۔ لیز ، نمکو ، جو کچھ بھی جس کے پاس تھا سب کھا پی لیا گیا ۔
دن ڈھلے یہاں سے واپسی کا سفر شروع کیا گیا ۔ بابا احمد خان نے واپسی کے لئے ایک نیا رستہ پکڑا جو پہلے رستے سے کچھ مشکل دکھائی دیا ۔ پہاڑ سے نیچے اترے تو بابا احمد خان نے بتایا کہ یہ سامنے والا رستہ سیدھا آپ کو گوسر لے جائے گا ہم اس رستے پر چلے ۔ ایک وسیع وادی سے گزرے جہاں سنتھے کی جھاڑیوں کی مخصوصی سوندھی سوندھی خوشبو بتاتی تھی کہ آپ وادی سون میں ہیں ۔ یہاں ایک جگہ قیام کیا تو نیاز بھائی نے اپنے بیگ سے حلوہ نکالا ۔ وادی سون کے لوگوں کی ایک مخصوص خوراک حلوہ ہے آدھے دوستوں نے حلوے سے منہ میٹھا کیا باقی دوست پیچھے رہ گئے تھے ۔
ابھی تک ذوالفقار صاحب، ان کے بھائی سرفراز ، ممتاز ناظر ، قمر ، احسان سبھی یہ کہہ کر ہمارا حوصلہ بڑھاتے تھے کہ بہت لطف آ رہا ہے ۔ چنیوٹ رائیڈرز اپنی گپ شپ میں مصروف تھے کوئی پیچھے رہ جاتا تو اس کو جلد چلنے کا کہا جاتا ۔ سورج ڈھل رہا تھا گرمی کم ہو رہی تھی جب ہم نے آخری چٹانوں سے اترنا شروع کیا جو شیطان کی آنت جیسی تھی ۔ گول گول گھوم گھوم کر دماغ ہی چکرا گیا اور ابھی نصف ہی سفر طے ہوا تھا سامنے وسیع و عریض وادی گوسر کے دلکش مناظر دعوت نظارہ دیتے تھے ۔ ایک جگہ سایہ ملا تو ٹریکر بیٹھتے چلے گئے ۔ کچھ دیر ریسٹ کیا اور پھر باقی کا سفر تو بہت ہی مختصر لگا ۔ جلد ہی ہم اپنی پارکنگ پلیس تک پہنچ چکے تھے
یہاں سب دوست لنچ کے لئے لائے ہوئی چیزیں ایک جگہ رکھتے گئے اور یوں مختصر سا لنچ کیا گیا ۔ ذوالفقار صاحب فیصل آباد سے آئے تھے انہیں واپس جانا تھا ۔ قمر الحسن وعدہ کر کے آئے تھے کہ شام کو آ جاوں گا وہ واپس میانوالی جانے کے لئے بے تاب تھے اور احسان نے پتا نہیں کس کس سے کیا کیا وعدے کر رکھے تھے جن کو پورا کرنا تھا وہ بھی واپس جانا چاہتے تھے ۔ نیاز بھائی نے ارسلان کے ہمراہ پیدل واپسی کا رستہ پکڑا وہ براستہ ڈیپ شریف کفری اور وہاں سے نوشہرہ جا رہے تھے ۔
سبھی دوستوں کو الوداع کہا تو کچھ نئے مہمان آن پہنچے ۔ محترمی استاد عبدالغنی اپنے دوست کے ہمراہ کورڈھی سے تشریف لے آئے ان سے پہلے پروگرام طے تھا کہ وہ ہم سے ملنے آئیں گے ۔ کچھ دیر ان سے گپ شپ لگی چونکہ حالیہ انتخابات کو زیادہ دن نہیں ہوئے اس لئے سیاست پر بات ہوئی وادی میں سیر و سیاحت کے امکانات پر بات چیت ہوتی رہی ۔ ہم سب یہ چاہتے تھے کہ انگریز کی بنائی ہوئی کٹھوائی تا کورڈھی براستہ وادی گوسر سڑک کی از سر نو تعمیر کی جائے تاکہ عوام کو پتا چلے کہ کیسی شاندار وادی ابھی تک دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے اور سیاحوں کو بھی اوچھالی تک ایک مختصر رستہ مہیا ہو سکے
یہ ہمارے ٹریک کا پہلا حصہ تھا ۔ اب دوسرے فیز میں ہم نے سرسبزچشموں سے لبریز وادی گوسر کے شمالی حصے کی سیر کرنا تھی جو نسبتاً ہموار ہے اور بلند پہاڑوں کے درمیان سرسبز میڈوز ہیں ۔کچھ دیر میں ہی جھال مجھالی نامی چشمے تک پہنچ گئے جس کی تصویریں ہم نے موسم خزاں میں بنائی تھیں ۔ جب چشمے تک پہنچے تو مایوسی ہوئی ۔ اس کے وہ رنگ نہ تھے جو موسم خزاں میں تھے پیلی گھاس کے درمیان سبز چشمے کے رنگ بہت ہی نمایاں تھے لیکن اس مرتبہ سبز پانی اور سبز ہی گھاس میں چشمے کا وہ جوبن دکھائی نہ دیا ۔
شام ہو رہی تھی جب ہم واپس چلے ۔ ایک چشمے کا پانی جمع دیکھ کر ممتاز بھائی مچل گئے اور فوراً پانی میں چھلانگ لگا دی ۔ ممتاز بھائی کی فیس بک میں اگر سو تصویریں ہیں تو ان میں سے نوے تصویریں ان کے نہاتے ہوئے کی ہیں ۔ ان کی دیکھا دیکھی عدنان احسن ، دانش بٹ اور احسن بلال صاحب نے بھی نہانے کا ارادہ کر لیا ۔ مجھے پسینہ آیا ہوا تھا جسم گرم تھا جس کی وجہ سے میں نے نہانے سے احتراز کیا ۔ وجدان بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ نہانے کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے ۔ ٹریکر بہت جلد تروتازہ دکھائی دیئے ۔
شام ہو رہی تھی جب ہم اپنے کیمپ واپس پہنچے ۔ فریزر میں رکھوایا گیا گوشت پہنچ چکا تھا ۔ ایک قریبی ڈیرے کے پاس اونچی پہاڑی پر ہم نے ٹینٹ لگائے ۔ شام ڈھلتے ہی ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں ۔ ہم دو ٹریک کے تھکے ماندے لیٹنے کی جگہ تلاش کرنے لگے ۔ ڈیرے کا ایک لڑکا صابر ہماری مدد کر رہا تھا میں نے اسے کہا کہ یار ایک چارپائی لے آو ۔ جو وہ لے بھی آیا تو آرام کرنے کا ایک ٹھکانہ مل گیا ۔ کچھ دیر گپ شپ لگی پھر دانش بٹ اور عدنان جونئر نے آگ جلانا شروع کی ۔ ہمارے پاس وافر مقدار میں مٹن موجود تھا کیمپنگ ہو اور وہاں آگ نہ جلائی جائے یہ تو ہو نہیں سکتا اسی لئے ہم نے رات کے کھانے کا انتظام خود کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ کھانے کے دوران دوست احباب خوش گپیوں میں مصروف رہے ۔ ممتاز ناظر نے بہت جلد احباب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا وہ اپنی شمال کی سیروں کے قصے سناتے رہے جن میں زیادہ تر کھانے کا ہی ذکر تھا کیوں نہ ہوتا ۔ گوجرانوالے کے احباب کا سفر کھانے سے شروع ہوتا ہے اور کھانے پر ہی ختم ہوتا ہے ۔ ہنسی مذاق میں کافی وقت گزر گیا ۔ احسن بلال صاحب پہلے تو چارپائی کو دور دور سے للچا کر دیکھتے رہے پھر پاس آ گئے میں نے ان کے لئے جگہ بنائی وہ اپنی داستانیں سناتے رہے ایک ہائیکر/ٹریکر کے پاس بتانے کو ، سنانے کو بہت کچھ ہوتا ہے ۔ سو بہت جلدی وقت گزر گیا ۔
مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں
- حاصل زیست۔ ایک مطالعہ - 16/05/2023
- جناح ہاؤس لاہور۔ کیا واقعی کوئی جناح ہاؤس لاہور میں بھی تھا؟ - 14/05/2023
- کیا عمران خان ایک ناکام سیاستدان ہیں؟ - 14/04/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).