ریاست مدینہ، جناح کا پاکستان اور نیا پاکستان


ذہن میں ایک آندھی جو چل رہی ہے،بار بار لکھتی ہوں اور مٹا دیتی ہوں۔ وسوسے کچھ اوربڑھ گئے ہیں، اندیشے دو چند ہو چکے ہیں۔ اب تو لفظ اس قدر محتاط ہیں کہ کاغذ پر بکھرنے کو بھی تیار نہیں۔ زبان لفظوں سے محروم، بولتی ہے تو لکنت اور نہ بولے تو ضمیر کی مجرم۔ سوچ سوچ کر ہلکان ہوں کہ ہم کس قسم کا پاکستان تشکیل دے رہے ہیں جہاں ریاست مدینہ تو دورکی بات، جناح کا پاکستان تو درکنار، چند دہائیوں قبل والا پاکستان بھی گمُ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

بہت وقت دیا گیا ہے نفرتیں کاشت کرنے کے لیے، اب عدم برداشت کی فصل تیار ہے۔ ریاست مدینہ میں بھائی چارہ تھا، برداشت تھی، اخوت تھی۔ خواب بہت اچھا ہے جناب وزیراعظم کا لیکن کیا کیا جائے کہ تعبیرممکن ہو؟

جناح کا پاکستان جہاں ہر شخص اپنے مذہب پرعمل کے لیے آزاد ہو۔ مندر، مسجد، گرجا گھر، سب اپنے اپنے عقائد میں آزاد ہوں مگر گلا تو ابتدا میں ہی گھونٹ دیا گیا۔ یقین کیجیے معاملہ عاطف میاں کی تقرری اور تنزلی سے کہیں زیا دہ کا ہے۔ کہ ہم یہ فیصلہ کب اور کیسے کریں گے؟ ہم نے کیسے جناح کی ریاست تشکیل دینی ہے جو مزید 70 سال مانگتی ہے، یا کم از کم اس کی جانب کوئی قدم تو اٹھائیں اور وہ کیا ہو؟ کوئی ایجنڈا سامنے نہیں ہے۔

ہم جس معاشرے کے باسی ہیں وہاں کے قواعد ہی الگ بنا دیے گئے ہیں۔ ایسا معاشرہ جہاں جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگے، دعوے اتنے بڑے بڑے کرو کہ حقیقت محسوس ہونے لگے، فریب ایسا دو کہ اجالے تک پشیمان ہوں۔ خواب ایسے پیش کرو کہ تعبیر ڈھونڈنی ہی نہ پڑے۔ دن میں سورج سے کشمکش اور رات میں چاندنی سے الجھو، سماج اس قدر حقیقتوں سے دور کر دو کہ بس بات بے بات دلیل نہیں منہ سے گالی نکلے۔ کچھ ایسا ہی معاشرہ ہم تعمیر کررہے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم منزل کی بات کرنے والے کہیں راستے سے بھی بےخبر تو نہیں ہو رہے۔

جناب عاطف میاں کی تعیناتی کی خبر گویا بجلی کی طرح گری۔ اقتصادی مشاورتی کونسل میں یوں تو درجن سے زائد اراکین تھے جن کا کام محض مشورے دینا ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ عملدرآمد سراسر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ کونسل صرف حکومت کی معاونت کرتی ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔ باقی فیصلہ حکومت کو خود کرنا ہوتا ہے۔ اب سے پہلے اقتصدی کونسل میں کون کون رہا کسی کو معلوم بھی نہیں مگر کپتان کی حکومت میں اس کمیٹی کے اعلان کے ساتھ ہی گویا بھونچال آ گیا۔ کیوں؟

یہ اگست 2014 کے دن تھے۔ کپتان دارالحکومت کے ڈی چوک میں دھرنا دیے بیٹھے تھے، دھاندلی کے الزامات اور حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھا رہے تھے۔۔ پھر ایک دن جناب خان صاحب نے اعلان کیا کہ میں جب حکومت بناؤں گا تو اپنا سمدھی وزیرخزانہ لگانے کی بجائے دنیا کے 25 پائے کے اقتصادی ماہرین میں سے ایک۔۔ عاطف میاں کو وزیر خزانہ بناؤں گا اور جب وہ یہ اعلان کر رہے تھے تو ان کے کان میں نام بتانے والے کوئی اور نہیں خود جہانگیر ترین تھے۔ یہ ویڈیو آج بھی دستیاب ہے۔

اس بیان کے بعد بھی واواکار مچی، یہاں تک کہ خان صاحب کو وضاحت دینا پڑی جس میں انھوں نے اعتراف کیا کہ انھیں یہ علم نہیں تھا کہ عاطف میاں احمدی ہیں۔ کہانی یہاں تک کچھ بہت دلچسپ نہیں ہے، اس میں موڑ تب آیا جب حکومت کی تشکیل کے بعد عاطف میاں کا اعلان ہوا۔ بحیثیت وزیر خزانہ نہیں بلکہ بحیثیت مشاورتی کمیٹی کے رکن کے طور پر۔

وزیراعظم کا فیصلہ قطعی طور پر پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے تھا مگر اس فیصلے کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پرایک طوفان برپا ہو گیا۔ سوشل میڈیا سے شہلا رضا اور شہلا رضا سے قومی اسمبلی و سینیٹ۔ حکومت کو دی جانے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان کے گلی کوچوں میں بھی احتجاج کی منصوبہ بندی متوقع تھی کہ عاطف میاں نے خود ہی حکومت سے معذرت کی اطلاع دی۔

طے پایا کہ سوشل میڈیا کے پیغام میں وہ اپنی ذاتی مصروفیات کا بہانہ بنائیں گے۔۔ مگر اس سے قبل ہی اس خبر کو پھیلا دیا گیا کہ عاطف میاں کو عہدہ چھوڑنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ عاطف میاں نے اپنی ساکھ کے مدنظر استعفے کا اعلان کیا اور حکومت کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر سبکی اٹھانی پڑی۔

اس ساری صورتحال میں چند سوالات جنم لیتے ہیں۔

جب عمران خان صاحب پہلے ہی اس ردعمل کا سامنا کر چکے تھے تو یہ فیصلہ لینے کی ضرورت کیا تھی؟ وزیراعظم کو فیصلے پر قائم رہنا چاہیے تھا۔۔ کیا یہ معاملہ ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت پر سوال نہیں اٹھا رہا؟ اب تک کے فیصلوں میں اُن کی جماعت کا سوشل میڈیا ایکٹوازم یا آپسی لڑائی جگ ہنسائی کے مواقع پیدا نہیں کر رہی؟ حکومت شدید معاشی بحران میں اس طرح کے فیصلوں کی متحمل کیسے ہو سکتی ہے؟

گرتی ہوئی معیشت بین الاقوامی سطح پر اس طرح کے دھچکے کیسے سنبھالے گی؟ اس کا ادراک وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو تو ہے لیکن شاید حکومت میں کسی اور کو نہیں۔ آنے والے دنوں میں جہاں عالمی سطح پر دہشت گردی کی اعانت کے الزامات کے تناظر میں ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں وہیں پر اس طرح کے واقعات ریاست کی بین الاقوامی ساکھ کو شدید متاثر کر سکتے ہیں۔۔ جس کا متحمل پاکستان اور بیرون ملک پاکستانی نہیں ہو سکتے۔

ہمیں اپنی انتہا پسند سیاہ کاریوں کو سفید کرنے کے لیے سچ کو بنیاد بنانا ہو گا ورنہ ہمیں کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں ہم خود کے لیے خود ہی کافی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).