بدیسی ادب: چیخوف کا وانکا


بیچارہ وانکا صرف نو سال کا تھا جب وہ یتیم ہو گیا تھا۔ ماں باپ کے مرنے پر اس کے دادا نے کچھ عرصہ تو اسے اپنے ساتھ رکھا لیکن بعد میں اس کو ماسکو بھیج دیا جہاں وہ ایک موچی کے پاس شاگردی کر رہا تھا۔ اگرچہ پیسے تونہیں ملتے تھے لیکن موچی اور اس کی بیوی نے اسے رہنے کے لیے جگہ دے دی تھی اور کھانے کی ذمہ داری بھی لے لی تھی۔

اسے موچی کے گھر رہتے تین مہینے ہوچکے تھے۔ اس نے ایک دن کا ناغہ نہیں کیا تھا۔ کل کرسمس کے تہوارپر اس کی پہلی چھٹی ہونے والی تھی۔

وانکا ساری رات نہیں سویا تھا، اسے انتہائی بے چینی سے صبح کا انتظار تھا۔ صبح ہؤی تو وہ بستر سے نہ اٹھا بلکہ جھوٹ موٹ سوتا بنا رہا۔ انتظار کرتا رہا کہ موچی اورموچن جن کو وہ مالک اورمالکن کہتا تھا گھر سے چلے جائیں اور گرجا میں جا کر کرسمس کا تہوار منائیں اور شکرانے کی عبادت کریں۔

جیسے ہی وہ دونوں گھر سے نکلے وانکا تیزی سے بستر سے اٹھا۔ الماری سے قلم دوات نکال کر ایک مڑے چڑے کاغذ کو تہیں سیدھی کر کے ٹوٹی ہؤی میز پر پھیلایا اور لکھنا شروع کر دیا۔ لیکن پہلا لفظ لکھنے سے پہلے اس نے دیوار پر لگی حضرت عیسے کی تصویر کو تعظیم سے دیکھا اور دعا کے لئے ہاتھ پھیلائے۔ آمین پھونک کر وانکا نے لکھنا شروع کیا۔

’پیارے دادا جان، میں خود اپنے ہاتھ سے خط لکھ رہا ہوں۔ آپ کو کرسمس مبارک ہو۔ میرے ماں باپ نہیں۔ میں دنیا میں اکیلا ہوں۔ آپ ہی میرے سب کچھ ہیں۔ ‘

باہر ابھی اندھیرا تھا۔ وانکا نے کھڑکی کی طرف دیکھا جس کے شیشے میں اسے موم بتی کی لو کا عکس نظر آیا۔ کچھ دیر مسلسل اس عکس کو دیکھ کر اسے یوں لگا جیسے وہ مسمریزم سے مسخور ہو کر شیشے میں اپنے دادا کی شبیہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس کا دادا، کونسٹینٹین ماکرچ، بڑا دلچسپ کردار تھا۔ وانکا کے آبائی قصبے کے لوگوں کے لیے تفریح کا سامان تھا۔ وہ ایک فیکٹری کے مالک کے ہاں چوکیدار کی حیثیت میں ملازم تھا۔ وانکا کی ماں بھی وہیں باورچی خانے میں کام کرتی تھی۔ باپ کا انتقال تو بہت پہلے ہو چکا تھا۔

ماکرچ بلکل دھان پان سا شخص تھا۔ اگرچہ پینسٹھ سال کا ہوچکا تھا لیکن اب بھی اس کی اس کی حرکتوں میں ایک لا ابالی سا لفنگا پن تھا۔ سارا دن باورچی خانے میں جوان نوکرانیوں کو چھیڑتا رہتا یا چولہے کے ساتھ والے چبوترے پر گندی سی رضائی اوڑھے لیٹا رہتا۔

رات کو وانکا کا دادا چوکیداری کرتا۔ ساری رات زور زور سے لاٹھی زمین پر مار کر ہوشیار، ہوشیار کی آوازیں لگاتا۔ دو وفادار کتے سر نیہوڑائے تابعداری سے اس کے پیچھے پیچھے چلتے۔

دونوں کتے دیکھنے میں بے ضرر لگتے تھے لیکن چھوٹا کتا جس کو وہ بینو کہتا تھا، جیسے ہی موقع دیکھتا بغیر آواز نکالے قریب سے گزرنے والی کسی عورت کی پنڈلی اپنے دانتوں میں دبوچ لیتا تھا۔ کئی مرتبہ محلے والوں نے اس کی زبردست پٹائی کی لیکن وہ بھی ڈھیٹ تھا اور ہر مرتبہ مار کھا کر کچھ دن اپنے زخموں کہ چاٹتا اور پھر پرانی حرکتوں پر اتر آتا۔

ماکرچ بچوں کو اپنے ارد گرد جمع کر کے کتوں کو نسوار بھی کھلاتا تھا۔ اور جب کتے نسوار کھا کر چھینکتے تو سارا ہجوم قہقہے لگاتا اور بوڑھے چوکیدارکو مزید شہ دیتا۔ چوکیدار پھر باورچی خانے میں جاکر تماشا لگاتا اور اپنی ہتھیلی پر تھوڑی سی نسوار رکھ کر کسی جوان ملازمہ کو سنگھاتا۔ اس کی تابڑ توڑچھینکیں سن کر باقی ملازم بھی باورجی خانے میں آ جاتے اور دیر تک بوڑھے چوکیدار کی حرکتوں سے محظوظ ہوتے۔

وانکا قلم دانتوں میں دبائے مسلسل کھڑکی کے شیشے میں اس تخیلی شبیہ کو دیکھے جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس وقت نقیناً اس کا دادا اپنے قصبے کے سب سے بڑے گرجا گھر کے باہر کھڑا ہو گا۔ اس نے گرم اوور کوٹ پہنا ہوگا، سر اونی ٹوپی سے ڈھانپ کر اپنے سانسوں سے مٹھیاں گرم کر رہا ہو گا۔ گرجا میں آنے والی نوجوان لڑکیوں کو ہوس بھری نظروں سے گھور رہا ہو گا اور داؤ لگنے پر ان سے چھیڑ چھاڑ بھی کر رہا ہوگا۔

وانکا کو تصور میں صاف نظرآ رہا تھا کہ قصبے میں اس وقت موسم انتہائی دلکش ہے، سورج ابھی نکلا نہیں ہے۔ اگرچہ سردی بہت ہے لیکن ہوا ساکت ہے۔ ہر چیز شفاف اور دھلی دھلائی ہے۔ کرسمس سے پہلی رات کو برف صرف چھتوں کو چمکانے کے لئے پڑی ہے۔ چمنیوں سے دھواں اٹھنا شروع ہو گیا ہے۔ علئی الصبح ناشتے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ابھی تک اندھیرا ہے۔ کہکشاں نے موتیوں سے جڑی چھتری کی طرح قصبے کو ڈھانپا ہوا ہے۔

وانکا نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ اس کو اچانک خیال آیا کہ اس نے خط مکمل کرنا ہے اور مالک اور مالکن کے آنے سے پہلے اسے بھجوانا بھی ہے۔ اس نے کھڑکی سے نظریں ہٹائیں اور پھر سے لکھنا شروع کیا۔

’پیارے دادا جان، کل میرے مالک نے مجھے بہت مارا۔ وہ مجھے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا صحن میں لے گیا اور سخت سردی میں چمڑے کی پیٹی سے مجھے بری طرح مارنا شروع کر دیا۔ میرا قصور بس اتنا تھا کہ مالکن کے بچے کو جھولا جھلاتے جھلاتے مجھے نیند آ گئی تھی کونکہ میں رات بھر کا جاگا ہوا تھا۔ مالکن بھی مجھے چھوٹی چھوٹی باتوں پر تھپڑ، مکے اور ٹھوکریں مارتی ہے اور مجھے کئی کئی وقت کھانا بھی نہیں دیتی۔

کل مجھے دو دن کے بعد سوکھی روٹی پانی کے ساتھ ملی۔ چائے اور گوبھی کا سوپ صرف مالک اور مالکن کے لئے بنتا ہے۔ میں ترستا ہوا دیکھتا رہتا ہوں لیکن مجھے کچھ اور کھانے کو نہیں ملتا۔
وہ مجھے کمرے کے باہر ڈیوڑھی میں سلاتے ہیں۔ رات بھر میں سردی سے ٹھٹھرتا ہوں، جیسے ہی آنکھ لگتی ہے ان کا بچہ رونے لگتا ہے اور مجھے اٹھ کر اس کو جھولے دینے پڑتے ہیں۔

دادا جان، میں اس زندگی سے تنگ آ گیا ہوں۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ خدا کے لئے مجھے اپنے پاس بلا لیں ورنہ میں مر جاؤں گا‘۔
فرط غم سے وانکا کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ اس کی آنکھیں آنسووں سے لبریز تھیں اور وہ لکھ رہا تھا۔

’دادا جان، آپ مجھے اپنے پاس بلا لیں۔ میں آپ کو نسوار بھی پیس کر دیا کروں گا۔ میں آپ کا ہر کام کروں گا۔ کتوں کی رکھوالی بھی کروں گا۔ اور اگر میں کوئی شرارت کروں تو بے شک مجھے جتنا چاہیں ماریں۔ میں اف بھی نہیں کروں گا۔ آپ کے پاس جو ملٹری کے بوٹ ہیں ان پر پالش کروں گا۔ جب بڑا ہو جاؤں گا تو آپ کا خیال رکھوں گا۔ اور جب آپ مر جائیں گے تو میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ گرجا میں حضرت مریم کے نام پر آپ کے لیے موم بتیاں بھی جلاؤں گا۔ بس آپ مجھے یہاں سے نکال کر اپنے پاس بلا لیں۔ میں ہیاں سے بھاگ بھی جاتا لیکین میرے پاس سردی کے بوٹ نہیں ہیں اور برف میں میں ننگے پاؤں نہیں بھاگ سکتا۔

میں آپ کی منت کرتا ہوں دادا، مجھے مایوس نہ کیجئے ورنہ میں جی نہیں سکوں گا‘۔
وانکا نے اپنے خط کو احتیاط سے تہ کر کے لفافے میں ڈالا۔ اور اس پر پتہ لکھا۔

وہ خوش تھا کہ ابھی تک کوئی بھی گرجا سے واپس نہیں لوٹا تھا۔ اس نے اپنی اونی ٹوپی پہنی اور بغیر کوٹ چڑھائے خط جیب میں ڈال کر بازار میں نکل آیا۔

اس نے کل رات ہی قصائی کی دکان میں بیٹھے ہؤے ایک آدمی سے پتہ کر لیا تھا کہ خط کیسے بھجوایا جاتا ہے۔ اور وہ لیٹر بکس بھی دیکھ آیا تھا جس میں خط ڈالیں تو وہ ساری دنیا کا چکر کاٹ کر اس کے دادا کے قصبے میں پہنچ سکتا تھا۔

خط کو سپرد ڈاک کر کے وانکا گھر واپس آیا۔ ابھی تک گھر خالی تھا۔ اسے موقع مل گیا کہ نیند کی ترسی آنکھیں موند سکے۔ اس نے دیکھا کہ اس کا دادا چولہے کے ساتھ والے چبوترے پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہاتھ سینک رہا ہے۔ چھوٹا کتا پچھلی ٹانگون پر کھڑا ہو کر ناچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بڑا کتا وفاداری کے اظہہار میں دم ہلا رہا ہے۔ جوان ملازمائیں دادا کے ارد گرد کھڑی قہقہے لگا رہی ہیں۔ ہر چہرے پر خوشی چھائی ہؤی ہے۔

اورغفلت میں سوئے ہوِئے وانکا کا تکیہ آنسووں سے گیلا ہو رہا ہے۔
(اختتام)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).