اور جب میں ریکھا سے ملنے اس کے گھر پہنچا


’’اگر تم راکھی سے ملنے گئے تو یاد رکھنا، اسے گلے مت ملنا، کیوں کہ یہ مجھ سے برداشت نہیں ہو گا؛ البتہ ریکھا مجھے بھی کسی زمانے میں بہت زیادہ پسند تھی، اس لیے تم اس سے ضرور گلے ملنا‘‘۔
انڈیا جانے سے ایک دو دن پہلے قصہ خوانی بازار میں ہماری ہفتہ وار محفل میں، میرے ایک دوست جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں، نے یہ الفاظ مجھ سے کہے۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ تم ضرور ریکھا سے گلے ملو گے اور میں نے بھی اس وقت جذبات میں آ کر کہہ دیا تھا، ’’ٹھیک ہے وعدہ ہے میں ریکھا سے گلے ملوں گا‘‘۔

میرے یہ ڈاکٹر دوست فلم اسٹار راکھی گلزار کے مداح ہیں۔ جب میں ہندوستان جانے کی تیاری کر رہا تھا، تو انھوں نے بھی چاہا کہ بھارت جا کے راکھی گلزار کا دیدار کریں، وہ راکھی جس کی صحت اور گالوں کو دیکھتے ہوئے، ڈاکٹر صاحب نے اُس کا پیار کا نام ’’گلاب جامن‘‘ رکھ چھوڑا ہے۔ ویزا اپلائی کرنے سے زرا پہلے، اُن کی والدہ بیمار پڑ گئیں، سو اُن کے لیے انڈیا جانا ممکن نہ تھا۔ وہ راکھی کے چاہنے والے ہیں، تو دوسری طرف میں ہوں، جو ریکھا کا ایسا پرستار کہ اس کا ذکر آتے ہی اُسے پیار سے ’برفی‘ کہتا ہوں۔ واقعہ یوں ہے کہ میرے اس ڈاکٹر دوست ہی نے مجھے فلم ’’اجازت‘‘ دیکھنے کو کہا تھا۔ یہ فلم انھیں لاہور کے زمانہ طالب علمی میں ایک سی ڈی شاپ والے نے اپنی طرف سے پیش کی تھی، کِہ آج تم یہ فلم دیکھنا، اگر پسند نہ آئی تو سی ڈی واپس کرتے ہوئے کرایہ مت دینا۔

فلمی ستاروں سے عشق بھی یہ کیا غضب کا ہوتا ہے، کیا کہیے۔ ہندوستانی سینما کی ایک فلم ہے، ’’گڈی‘‘؛ کبھی اتفاق ہو، تو یہ فلم ضرور دیکھیے گا۔ جیا بہادری نے ایسی اسکول گرل کا کردار ادا کیا تھا، جو فلم اسٹار دھرمیندر کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ دھرمیندر اس فلم میں، بطور دھرمیندر ہیں۔ یہاں میں آپ کو ’’گڈی‘‘ کی کہانی نہیں سنانے والا، بل کہ اپنی داستان کہوں گا۔ مجھے دلیپ کمار سے ایسی محبت ہے، کہ زمانہ جانتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ میں نے ان سے ملاقات کی خواہش میں جون 2014 میں ہندوستان کا دورہ کیا۔ دلیپ کمار کی محبت اپنی جگہ، میرے دِل میں جو مقام اُن کا ہے، وہ کسی اور کا نہیں، لیکن ریکھا نے شروع میں مجھے فلم ’’گھر‘‘، ’’امراو جان‘‘، ’’سلسلہ‘‘، اور بعد میں فلم ’’اجازت‘‘ سے نہایت متاثر کیا۔ اس لیے میں نے ریکھا کو ان فن کاروں کی فہرست میں شامل کیا، جن سے مجھے ملنے کی شدید تر خواہش رہتی ہے۔ مجھے جو پسند ہو، ایک نہ ایک دن اس پسندیدہ شخصیت سے ملنے پہنچ جاتا ہوں؛ چاہے وہ سرحد پار ہی کیوں نہ رہتا ہو۔ ریکھا ہی کی طرح میں گلزار کا بھی مداح ہوں۔ شاید اس لیے بھی کہ ریکھا کی بہترین فلموں میں سے ایک فلم ’’اجازت‘‘ کے خالق مصنف، ہدایت کار و شاعر گلزار ہیں۔

دلیپ کمار سے ملنے جب ممبئی گیا۔ انھی دنوں میں سے ایک روز حاجی علی درگاہ پر تھا؛ وہاں سیڑھیوں پر کچھ دیر بیٹھا، سمندر کے شور سے سکون پا رہا تھا، جب کہ عموماً میں شور پسند نہیں ہوں۔ وہاں میں نے خود کو سمندر کے کھارے پانی میں پورا گیلا کر لیا تھا۔ اس کے بعد ارادہ تھا کہ باندرہ میں شاہ رُخ خان کے گھر جانا ہے۔ ایک ٹیکسی والے سے بات کی، اُس نے سیٹ کو گیلا ہونے سے بچانے کے لیے سیٹ کے اوپر پلاسٹک ڈال دیا، جو شاید اس نے ہم جیسی بھیگی سواریوں کے لیے اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔

میں اپنے بچپن میں شاہ رُخ خان کا بھی دیوانہ رہا ہوں۔ بدقسمتی کہیے، کہ میں صبح جس وقت شاہ رُخ کے گھر ’’منت‘‘ پر پہنچا، تو بتایا گیا، کہ شاہ رُخ رات بھر فلم شوٹنگ کے سلسلے میں جاگتے رہتے ہیں، اور صبح سو جاتے ہیں۔ جب دُپہر میں اٹھتے ہیں تو اپنے مداحوں کو گھر کی چھت سے اپنی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔ باندرہ جہاں بڑے بڑے فلمی ستارے رہتے ہیں، وہیں شاہ رُخ کے پڑوس میں ریکھا رہتی ہیں۔ شاہ رُخ کے گھر پر موجود سیکورٹی گارڈ نے مجھے دُپہر کو آنے کا کہا، سیکورٹی والوں سے کچھ بد مزگی بھی ہو گئی، نہ بھی ہوتی تو دُپہر تک رُکنے کا سوال ہی نہیں تھا، کہ اندھیری ایسٹ میں میرے ساتھی میرا انتظار کر رہے تھے؛ وہاں سے ہمیں کہیں اور جانا تھا۔ میرے پاس ابھی وقت تھا، تو موقع سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی اور وہاں سے قریب ہی ’برفی‘ یعنی ریکھا کے گھر کا رُخ کیا۔ ریکھا کے گھر کا دروازہ بڑا خوف ناک سا ہے، جس پر لکڑی کے کام سے کئی ڈراونی شکلیں بنی ہوئی ہیں۔ ریکھا گھر پر موجود تھیں، مگر مجھے دیکھ کے ساحل پر کھڑا ایک بیس بائیس سالہ سیاہ فام لڑکا دوڑتا ہوا میرے قریب آیا، اور غصے سے پوچھا۔ ’’ابے کیا ہے‘‘؟


معلوم ہوا کہ ریکھا کے گھر کے دروازے پہ بنی شکل والا یہ لڑکا، وہاں سیکورٹی گارڈ ہے۔ میں نے اپنا تعارف کراویا کہ میں پاکستان کے شہر پشاور سے آیا ہوں، ریکھا کا بڑا فین ہوں، آپ کی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ ریکھا سے کہیں گے، کہ آپ سے ملنے کوئی اتنی دور سے آیا ہے۔ اس چھوکرے نے مجھے سر سے پا تک گھور کر دیکھا اور کہا۔
’’چاہے تم پاکستان سے آئے ہو یا افغانستان سے، ہم تیرے کو ملنے نہیں دے گا؛ میرے کو میڈم نے منع کیا ہے‘‘۔
’میں نے لجاجت سے کہا، ’’آپ ریکھا سے کہو تو سہی، وہ ملے گی؛ وہ بہت اچھی ہے‘‘
اُس رُو سیاہ نے جل بھن کے کہا، ’’ہاں ہم کو پتا ہے، کہ وہ کتنی اچھی ہے۔ اب تم جاو؛ صاف بولا، ہم تم کو ملنے نئیں دے گا‘‘۔

پٹھان دماغ کی وجہ سے پہلے ہی شاہ رُخ خان کے گھر پر سکیورٹی والے سے گرما گرمی ہو چکی تھی اور اب اس رقیب رُو سیاہ کو کس کر ایک لگانے کو دل چاہتا تھا، لیکن غصے پر قابو پا کے میں نے وہاں سے کھسکنا مناسب جانا۔ ویسے تو میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں، اُس لڑکے کو زِیر کر لیتا، لیکن میری وجہ سے انڈیا پاکستان کے تعلقات مزید خراب ہو جاتے، یہ گوارا نہ تھا۔ جب کہ  میں خود کو محبت کا سفیر مانتا ہوں اور دونوں ممالک کی دوستی کا خواہش مند ہوں۔ تو آپ میری مجبوری سمجھ سکتے ہیں۔ بہرحال میں چند قدم دور ہی گیا تھا، کہ ریکھا کے گھر پر ایک گاڑی آ رکی، اور میں دوڑتے ہوئے اس کے قریب جا پہنچا۔ گاڑی سے بوائے ہیئر کٹ والی کوئی پچاس سال کے اوپر کی ایک دِل نشیں و دِل کش سانولی سلونی باہر نکلی۔ مجھے خیال آیا کہ یہ میم صاحب، ضرور ریکھا کی دوست ہوں گی۔ سوچا، مجھے اس سے بات کر لینی چاہیے۔ میں نے اس سے درخواست کی لیکن وہ سوری کہہ کر ریکھا کے گھر کی طرف بڑھ گئی۔ اپنی ’برفی‘ کے اتنے پاس پہنچ کر بھی اس سے ملاقات نہ ہونے کا افسوس تو ہو رہا تھا، لیکن ایک دو باتوں کا سوچ کر افسوس کم بھی ہو جاتا ہے۔ ایک بات تو یہ کہ میرے سیل فون کی بیٹری ختم ہو چکی تھی، جس سے تصویر بناتا، اب اگر ریکھا سے ملتا، تو کس کم بخت نے یقین کرنا تھا کہ میں ریکھا سے ملاقات کر آیا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب تو مانتے ہی کب۔ اچھا تھا کہ میں ڈاکٹر صاحب کو جا بتاتا کہ ریکھا سے ملاقات نہیں ہو سکی۔

ریکھا سے ملاقات میں ناکام لوٹتے، باندرہ سے اندھیری ایسٹ اپنے گرو ساگر سرحدی (فلم ’’بازار‘‘ فیم) کے دفتر واپس ہوتے، میں یہ سوچ کر اپنا دُکھ کم کرنے کی کوشش کرتا رہا، کِہ چلو کوئی بات نہیں جو ریکھا سے ملاقات نہیں ہوئی؛ ڈاکٹر دوست سے کِیا وعدہ، کِہ میں ریکھا سے گلے ملوں گا، پورا نہ ہو سکا، لیکن اس میں میرا کیا قصور۔ ڈاکٹر صاحب، اب آپ ہی کہیے اگر میں اپنی گیلی پینٹ شرٹ میں ریکھا سے گلے ملتا، تو وہ بے چاری تو بھیگ ہی جاتی ناں۔

انڈیا سے آئے کچھ وقت گزرا تو ایک دن ڈاکٹر صاحب کے ساتھ لاہور جانا ہوا۔ وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے، جس نے انھیں فلم ’’اجازت‘‘ کی سی ڈی دی تھی، کہ پسند نہ آئے تو کرایہ مت دینا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا کہ اُس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے، اور ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے میں نے ’’اجازت‘‘ جیسی لطیف جذبوں والی فلم دیکھی۔ ڈاکٹر صاحب نے غالبا رعب جھاڑنے کے لیے اس سی ڈی والے کو کہا، کہ صفی ریکھا سے ملنے اس کے گھر گیا تھا، لیکن وہاں اسے سیکورٹی والے نے ملنے نہیں دیا، یہ قصہ سن کے وہ بے چارہ تاسف بھری نظروں سے مجھے دیکھتا چلا گیا۔ مجھے یاد ہے، کہ اس نے غم زدہ ہوتے اپنے انگلیوں میں پکڑا ادھ جلا سیگرٹ ایک طرف پھینک دیا تھا۔
اک ’ہم‘ ہی نہیں تنہا، اُلفت میں ’تیری‘ رُسوا
اِس شہر میں ’ہم‘ جیسے دیوانے ہزاروں ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).