ڈیموں کی تعمیر! موسمی تعیرات کے تناظر میں


ڈیم بنانے کا شوشہ سب سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس وقت چھوڑا جب انہوں نے ڈیم فنڈز قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے پر ملا جلا ردعمل دیکھنے کو ملا۔ اس کے بعد عمران خان نے وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کے چند ہفتے بعد عوام بالخصوص بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے خطا ب کرتے ہوئے ڈیموں کی تعمیر کے لئے چندہ دینے کی اپیل کی او ر ابھی تک اربوں روپے جمع ہوچکے ہیں۔

اس وقت دیامیر کے مقام پر 1750 ارب روپے کی لاگت سے دیامیر بھاشا ڈیم زیر تعمیر ہے، جبکہ کالاباغ ڈیم بھی نعروں کی حد تک زندہ ہے۔ حقیقت یوں ہے کہ پاکستان موسمی تعیرات سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے جبکہ آزاد تخمینوں کے مطابق 2025ء تک یہاں شدید آبی بحران کا امکان ہے۔

اسی وجہ سے ڈیموں کی تعمیر کو ناگزیر خیال کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1947ء میں پاکستان میں فی کس 6000 گیلن پانی موجود تھا جبکہ اب یہ صرف 1000 گیلن رہ گیا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گھٹ چکی ہے۔ اس بحران سے سب سے زیادہ بلوچستان، کراچی اور سندھ کے دوسرے علاقے متاثر ہے۔

اس بحران کی وجہ پانی کے ذخائر میں کمی نہیں بلکہ آبادی میں بے لگام اضافہ ہے۔ کیا ڈیم بناکے ان سارے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ؟

پاکستان میں جتنے دریا بہہ رہے ہیں ان کا منبع کشمیر، گلگت بلتستان اور دوسرے شمالی خطے ہیں۔ ان علاقوں میں گلیشئر ز کی بڑی مقدار موجود ہے بلکہ کہا یہ جاتا ہے کہ قطبین کے بعد گلیشئر ز کی سب سے بڑے ذخائر پاکستان کے انہی شمالی خطوں میں واقع ہے۔ چاہے وہ سیاہ چین ہو یا قراقرم، پامیر اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلے۔ یہ سارے پہاڑ سارا سال برف سے ڈھکی رہتی تھی۔ لیکن گزشتہ کئی برسوں سے برف باری نہ ہونے اور گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے پانی کے یہ ذخائر ختم ہوتے جارہے ہیں۔

ہر سال موسم گرما میں ان پہاڑی خطوں میں گلیشئرز کے پھٹنے کی وجہ سے کئی علاقے تباہ ہورہے ہیں۔ اگر ان علاقوں میں موجود گلیشئرز کے ذخائر ختم ہوگئے تو دریائے سندھ (جہاں دیامیر بھاشا ڈیم بن رہا ہے ) اور دریائے کابل جس کا منبع چترال میں ہے دونوں کے سوکھنے کے امکانات ہے ایسی صورت میں دیامیر بھاشا ڈیم کا کیا بنے گا؟

بجائے ڈیم بنانے کے لئے اربوں روپے انوسٹ کرنے کے اگر ان شمالی خطوں میں گلیشئرز کی تباہ کن پگھلاؤ کو روکنے کے لئے حکومت کوئی میکنزم تیار کرتیں۔ اور اس خطے میں گرمی کی شدت میں بے تہاشہ اضافے کے مقامی محرکات کا جائزہ لینے اور ان کی تدارک نیز اس خطے میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کا بندوبست کیا جاتا تو گلیشئرز کے پگھلاؤ کو روکنا ممکن ہے تب ان ڈیموں کی بھی شاید کچھ نہ کچھ افادیت رہ جائے۔

اس کے بغیر ڈیم بنانا محض پیسے کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مثال کے طورپر دیامیر بھاشا ڈیم بن بھی جائے تو سندھ اور بلوچستان میں خشک سالی اور پانی کی قلت کا کس طرح تدارک ہوسکے گا؟ ڈیم بنانے سے زیادہ ضروری تو شمالی پہاڑوں میں موجود گلیشئرز کو بچانا اور میدانی خطوں میں زیر زمین پانی کی حفاظت اور منصوبہ بندی کے تحت استعمال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).