محبت کا آخری خط


خزاں کا موسم تھا۔ درخت کے پتوں پر سبز رنگ کی جگہ اب ہر قسم کے رنگوں نے جگہ لی تھی۔ برآمدے میں کرسی پہ ٹیک لگائے احمد پرانی یادوں کے اوراق کو ٹٹول رہا تھا۔ آج کئی برسوں بعد اس سے پرانی یادوں کا ایک انبار ملا تھا۔ جو وہ ایک ایک کرکے حسرت سے پڑھ رہا تھا۔ ایک ڈائری اور اس کے اندر سوکھے ہوئے گلاب کے پھول، کچھ پرچیاں اور کاغز کے دو تین اوراق جس میں ایک تحریرلکھی گئی تھی۔ تحریر کی سیاہی ابھی پھیکی پڑ گئی تھی۔ جانے کتنے عرصے سے یہ تحریر کسی کی منتظر تھی۔ اس سے دیکھتے ہی احمد ششدر رہ گیا۔ اور اس کی پلکوں میں نمی سی پیدا ہوئی۔ شاید یہ احمد کے دل کے پردوں میں چھپا ایک راز ہی تھا جو اس نے آج کسی کے ساتھ شئیر نہیں کیا تھا۔ اس نے آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے دھڑکتے دل کے ساتھ تحریر کو پرٹھنا شروع کیا۔

میرے ہمراز میرے دل کے قریب صاحب جی

جب سے تم گئے ہو گھر سنسان لگنے لگا ہے۔ یا یوں کہے کہ گھر اب ویران سا لگنے لگا ہے۔ جاتے وقت تمہارے ہاتھ میں جو گلاب کا پھول تھا وہ آج بھی میری کتاب کے اندر موجود ہے۔ لیکن اب وہ مرجا گیا ہے۔ اس کے پتے سوکھ گئے ہیں۔ اس کی چھوٹی سی سوکھی ہوئی ٹہنی دیکھتی ہوں تو مجھے اپنے اندر کے وجود کے ٹوٹنے کا گمان ہوتا ہے۔ اور جو پتے ہرے تھے تمہارے جانے کے بعد اب وہ زرد ہو کر سوکھ گئے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ آپ ان کی رنگت اپنے ساتھ لے گئے ہو۔

وہ جاتے وقت تم نے کہا تھا نا۔ نازو میں آونگا یہاں تم سے ملنے۔ تم سے ملنے میں ضرور آونگا۔ میں ان لفظوں کو کبھی بھول ہی نہیں پائی۔ اب تو کئی برس بیت گئے ہیں۔ مگر آج بھی سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ وہ گلی جس سے تم گزرے تھے۔ اس پر نظر رہتی ہے میری۔ اس وہم میں کہ شاید تم آجاؤ کسی بہانے۔ دن کو سورج کی روشنی میں شاید تمہیں آتے ہوئے میں دیکھوں یا پھر چاند کی چاندنی میں تم آتے ہوئے دیکھائی دو۔ روز گھر کے صحن میں لگے پودوں سے ایک ایک ہو کر جب زرد پتے گرنے لگتے ہیں تو لگتا ہے کہ جیسے میری زندگی ٹوٹ ٹوٹ کے بکھرتی جارہی ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے بہار نے ان کے ساتھ بہت بے وفائی کی ہو۔ اب دیکھ! کیسے پیلے ہو کر زمین پر گر رہے ہیں اور پھر سوکھ کر خاک بن جاتے ہیں۔

میں سوچ رہی ہوں کہ شاید بہار کا موسم ہر سال ان کو جاتے ہوئے بے وفائی کے سوا کچھ نہیں دے جاتا۔ اور یہ بھی سوچتی ہوں کہ اگر تم بے وفا ہوگئے تو کہیں میں بھی ان زرد پتوں کی طرح ٹوٹ کر بکھر نہ جاوں۔

احمد تحریر کو ہاتھ میں پکڑے ان پتوں کو دیکھنے لگا۔ جو ابھی ابھی ٹہنی سے کٹ کر اُس کے صحن میں گرے تھے۔ وہ انہیں کچھ دیر دیکھتا رہا۔ پھر ہوا کا ایک جھونکا آیا اور انہیں اُڑا لے گیا۔ احمد کسی گہری سوچ میں تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک کر زمین پر گر پڑے اس نے خود کو سنبھالا اور تحریر کو پڑھنے لگا۔

میری روح میں بسے میرے حسین احساس صاحب جی۔

میرے کمرے کا دروازہ آج بھی ہوا کی آہٹ کے ساتھ کُھلتا ہے اور مجھے میری سوچوں سمیت باہر لے کے جاتا ہے۔ تمہارے آنے کی آہٹ ہر وقت میرے اور میری تنہا خیالوں کے درمیان ہی رہتی ہے۔ آپ کو یہ بھی بتاوں۔ کہ میں آج بھی وہ کُھلی کھڑکی کے سامنے کھڑی رہتی ہوں۔ تم سوچوگے۔ کیوں؟

وہ ایک بار تم نے کہا تھا نا کہ نازو تم مجھے اس کھڑکی سے جاتے ہوئے دیکھا کرو۔ میں دور کونے میں جا کے تمہیں ایک نظر دیکھ کے چلا جاونگا۔ آج بھی میری نظریں اس کھلی کھڑکی کے سامنے ٹکٹکی باندھے ہوئی ہیں۔ ہاں تم نے یہ بھی تو کہا تھا۔ ہر آہٹ میں صرف میں ہوں۔ اب ہر آہٹ میں لگتا ہے کہ واقعی تم ہی ہو۔ مگر تمہارا وجود نہیں۔ یہ میرا وہم ہی ہے جو تمہیں میرے سامنے لاکھڑا کر دیتا ہے۔

وہ پھولوں کی پتیاں میں نے سنبھال کے رکھی ہیں۔ جو تم سے ملاقات پہ میں نے تم پہ نچھاور کی تھی۔ وہ پتیاں اب مرجا گئی ہیں۔ مگر اُن میں تمہاری مہک آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ اور وہ پہلی صبح! جب تم نے کہا تھا کہ نازو تمہارے بکھرے ہوئے گیلے بال بہت اچھے لگتے ہیں۔ تب سے تو میں ان کو سنوارنا ہی بھول گئی ہوں۔ اور ایک انجان بندھن میں بندھی آج بھی میں بستر کے چادر میں پڑی سلوٹوں کو بہت دیرتک دیکھا کرتی ہوں۔ تم سمجھ رہے ہوں گے کہ میں پاگل ہوں۔ مگر میں پاگل نہیں ہوں۔ بس مجھے تمہارا گُمان کچھ زیادہ ہونے لگا ہے اور ہاں شاید تھوڑی پاگل بھی ہوں۔

میرے محبوب!

میں تمہیں بے وفا کیسے کہوں۔ تمہیں گلہ بھی نہیں۔ کیونکہ میں خود ہی تو تمہاری دیوانی تھی۔ آپ خوش رہیں اور کبھی میری یاد آئے تو یہاں چلے آنا۔ ان در و دیوار کو دیدار دینا۔ جہاں میرا سکوت رہتا ہے شاید اس خط کا کوئی ٹکڑا تمہیں مل ہی جائے۔ کیونکہ اس حد تک کی دیوانگی اور تمہاری بے رخی میری جان تو لے ہی لے گی۔

فقط آپ کے نازو میں پلی نازنین

احمد نے آنکھیں بند کی اور خط کو سینے سے لگا کے سوچنے لگا۔ مگر اس بار وہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکا۔ اس کے آنکھوں سے اشک بہنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اُٹھا۔ اپنی شال اوڑھی اور برآمدے میں بکھرے پتوں سے کچھ پتے اُٹھائے اور خط میں رکھ کر حد نگاہ سے کہیں دور چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).