ان سے خریداری کریں، یہ صدقہ جاریہ ہے


آج کل ملک بھر میں کھانے پینے کا کاروبار عروج پر ہے۔ آپ بھی یہ کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو ایک چھوٹی سی دکان کرائے پر لیں۔ دکان کی ایک دیوار پر گہرے رنگ کا پینٹ کریں، بقیہ دیواریں ہلکے رنگ میں رنگیں۔ اب ان دیواروں پر کسی مشہور انگریزی سیریز کے کردار یا مکالمے پینٹ کر دیں نہیں تو ٹرکوں کے پیچھے لکھے کچھ اشعار لکھ ڈالیں، یہ بھی نہ پسند آئے تو پرانی پنجابی فلموں کے کردار بھی اپنے مخصوص مکالموں کے ساتھ بہترین رہیں گے۔

لوگوں کے بیٹھنے کو دو چار رنگین موڑھے رکھ لیں یا گائو تکیے لگا کر فرشی بیٹھک بنا دیں۔ دکان کے باہر ایک فینسی سے نام والا بِل بورڈ لگا دیں۔ مینیو میں مختلف اقسام کے پراٹھے عجیب و غریب نام کے ساتھ رکھ لیں۔ کس کا نام ٹرمپ پراٹھا رکھ دیں تو کسی کو تبدیلی راج کا نام دے دیں۔ بس پھر دیکھتے جائیں ایک دکان سے دوسری اور دوسری سے تیسری دکان کیسے بنتی ہے۔

اسی طرز پر لاہور میں کئی اقسام کے چائے کے ڈھابے اور پراٹھوں کے ریستوران کھلے ہوئے ہیں جہاں عام سی چائے اور سادے سے پراٹھوں کو سجا بنا کر گاہک کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور بدلے میں سینکڑوں روپے بٹورے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی، کالج میں پڑھنے والے بچے جیب خرچ جمع کر کے یہ پراٹھے منگواتے ہیں۔ گھر میں سو سو نخرے کر کے آلو کا پراٹھا کھانے والا وہاں ہر لقمے پر سو ٹیسسٹی کہتے ہوئے پراٹھا کھاتا ہے۔ فیس بک پر موجود فوڈیز گروپس میں ان پراٹھوں کی شان میں کم از کم پانچ سو الفاظ کی پوسٹ کی جاتی ہے۔

بڑے بڑے اخباروں کے فیچر رائٹرز ان ریستورانوں کا خاص طور پر ریویو کرتے ہیں جن میں وہ ان کے کھانے سے لے کر ماحول تک کی ریٹنگ کرتے ہیں۔

آپ ایسا فینسی ریستوران بنانے کی طاقت نہیں رکھتے تو ایک ریڑھی پر چنے، بریانی یا برگر بیچنا شروع کر دیں۔ بس نام نیا ہو اور آپ مرد ہوں۔ بس پھر دیکھیں آپ کی ریڑھی کیسے سٹیٹس سمبل بنتی ہے۔ ملک کے کئی شہروں میں ایسی سٹیٹس سمبل والی ریڑھیاں موجود ہیں۔ ان ریڑھیوں کے پیچھے عورت نہیں بلکہ تہہ بند اور بنیان پہنا آدمی موجود ہوتا ہے۔ اس کی ریڑھی کا سامان ایک سے دو گھنٹے میں بک جاتا ہے اور ان ایک دو گھنٹوں میں یہ اتنا کما لیتا ہے جتنا ہم ڈگری یافتہ مہینہ بھر میں نہیں کماتے۔

دوسری طرف اسلام آباد کے ایک کمرشل علاقے میں ایک برقع میں ملبوس خاتون اپنی حجاب پوش بیٹی کے ہمراہ ایک ریڑھی پر آلو کے پراٹھے بیچتی ہیں۔ ان کے ٹھیلے کی تصاویر لی جائیں تو ان تصاویر میں پراٹھے نہیں بلکہ صدقہ جاریہ کا سامان نظر آتا ہے۔ فوڈیز گروپس میں یہ تصاویر پانچ سو الفاظ کے کیپشن کے ساتھ شئیر نہیں کی جاتیں بلکہ ان کے لیے بس آٹھ سے دس الفاظ ہی کافی ہوتے ہیں۔

’ان سے خریداری ضرور کریں۔ یہ صدقہ جاریہ ہے۔‘

ایسا کیپشن آپ کو بڑے سے بڑے پانچ ستارہ ہوٹل اور چھوٹے سے چھوٹے بریانی پوائنٹ کے ریویو کے ساتھ بھی نہیں ملے گا کیونکہ وہاں جانا اور وہاں سے کھانا صدقہ جاریہ نہیں بلکہ سٹیٹس سمبل ہے۔

سنتے تھے کہ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے لیکن شائد اب اولاد کی تربیت اتنی مشکل ہو گئی ہے کہ ایسی ریڑھیوں کو ہی اپنے لیے زبردستی صدقہ جاریہ بنایا جا رہا ہے۔

اگر کسی خاتون کو حالات اس ریڑھی تک لے آئے ہیں تو لازمی ہے کہ اسے بے چاری ہی سمجھا جائے اور بے چاری ہی رہنے دیا جائے؟ کیا اس عورت کو بھی اس آدمی کی طرح تصور نہیں کیا جا سکتا جو ہر جگہ سے ناکامی کے بعد ایک ریڑھی سے شروعات کرتا ہے اور سال بعد ایک دکان کا مالک بن جاتا ہے۔ مرد کی صورت میں یہ تصور کرنا آسان ہے عورت کی صورت میں ناممکن۔ تب ہی اس معاشرے میں قندیل بلوچ کو گھر چلانے کے لیے اپنے جسم کا سہارا لینا پڑتا ہے جس کی قیمت اسے اپن زندگی کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے جبکہ بھولا ریکارڈ اور انکل مجبور اپنی ایک ایک ویڈیو کی وجہ سے نوجوان نسل کے ہیرو بن جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).