جانور راج: ”اب سب جانور کامریڈز ہیں“۔


جئی کی کٹائی میں انہوں نے کیسے اپنا خون پسینہ ایک کیا، نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ مگر ان کی کوششیں رنگ لائیں اور جھاڑ ان کی امیدوں سے کہیں بڑھ کر آیا۔ کبھی، کام پہاڑ بن جاتا تھا، اوزار تو انسانوں کے لئے بنے تھے، جانوروں کے لئے نہیں اور ایک بہت بڑی کمی یہ تھی کہ کوئی بھی جانور ایسا کوئی اوزار استعمال کرنے کے قابل نہیں تھا جس کے لئے پچھلی دو ٹانگوں پہ کھڑا ہوا جا سکے۔ لیکن، سؤر ایسے سیانے تھے کہ ہر مشکل کا حل ڈھونڈھ نکالتے تھے۔ گھوڑوں کا یہ تھا کہ، زمین کے چپے چپے سے واقف تھے اور جانی صاحب اور اس کے بیلداروں سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے کٹائی اور گیہائی کرنا جانتے تھے۔

سؤروں نے خیر سے تنکا بھی دہرا نہ کیا، ہاں دوسرے جانوروں کو ہدایات ضرور دیتے رہے۔ ان کی علمی بر تری کے باعث، ان کا لیڈر بن جانا، ایک قدرتی عمل جیسا ہی تھا۔ باکسر اور کلوور، خود ہی ساز واز پہن کر، پنجالی یا کٹائی والا آلہ کمر پہ ڈال کے ( ان دنوں نکیلیں اور باگیں نہیں ہوا کرتی تھیں ) بڑی ثابت قدمی سے، کھیت میں، چکر پہ چکر لگاتے، جبکہ ایک آدھ سؤر موقعے کی مناسبت سے، ان کے پیچھے، ‘ ہیا! ہیا! کامریڈ! ‘ یا ’ ہش ہش کامریڈ! ‘کرتا پھر رہا ہوتا۔ اور کمزور ترین جانور تک، جئی کو کاٹنے اور برداشت کرنے میں لگے ہوئے تھے۔

حد یہ کہ بطخیں اور مرغیاں تک، تیز دھوپ میں، اپنی چونچوں میں، جئی کے سٹے تھامے، باڑے کی طرف آتی جاتی دکھائی دیتی تھیں۔ آخر کار، انہوں نے یہ کٹائی دو دن میں مکمل کر لی، اس سے کہیں کم وقت میں جو جانی صاحب کے آدمیوں کو لگتا تھا۔ مزید یہ کہ، اب تک باڑے میں ایسی بھاری فصل کوئی نہ ہوئی تھی۔ تنکا بھی ضائع نہیں ہوا تھا، مرغیوں اور بطخوں نے اپنی تیز نظروں سے سٹہ سٹہ دیکھ اور چن لیا تھا۔ اور باڑے کے کسی بھی جانور نے ایک پھنکے سے زیادہ کچھ نہ چرایا تھا۔

سارا موسمِ گرما، باڑے کا کام، گھڑی کی طرح چلتا رہا۔ جانور خوش تھے، کیونکہ انہوں نے سوچا بھی نہ تھا کہ کبھی یہ ممکن ہو گا۔ ہر نوالہ، ایک گہری، روحانی خوشی کا باعث تھا کیونکہ اب یہ واقعی ان کا رزق تھا، ان ہی کی محنت کا حاصل، ان کا اپنا پیدا کردہ، کسی، کینہ پرور مالک کا ڈالا ہو اٹکڑا نہیں تھا۔ نکمے اور جونک صفت انسان کے دفعان ہو جانے پہ، اب سب کے کھانے کو بہت کچھ ہوتا تھا۔ فرصت بھی بہت ہوتی تھی۔ جانور ناتجربہ کار تھے۔ انہیں بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ مثلاً سال کی آخر میں جب انہوں نے مکئی کی کٹائی کی تو انہیں اسے قدیم طریقے سے، دل کے اور پھونک پھونک کے صاف کرنا پڑا، باڑے پہ کوئی، تھریشر تو تھا نہیں۔ لیکن سؤراپنی دانش مندی اور، باکسر بے پناہ طاقت سے انہیں ہر مشکل کے پار لے جاتے تھے۔

باکسر تو ہر ایک کے لئے مثال تھا۔ وہ جانی صاحب کے زمانے سے ہی محنتی تھا لیکن اب تو وہ ایک کی بجائے، تین گھوڑوں جتنا کمیرا بنا ہوا تھا۔ باڑے پہ کوئی کوئی دن ایسے بھی گزرتے تھے، جب باڑے کا سارا کام اس کے مضبوط کندھوں پہ ٹکا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ پو پھٹے سے شام ڈھلے تک، وہ دھکیلتا، گھسیٹتا، ہمیشہ اس جگہ ہوتا جہاں، سب سے مشکل کام ہو رہا ہوتا تھا۔ اس نے ایک مرغے کے ساتھ، کچھ سانٹھ گانٹھ کر لی تھی کہ وہ اسے باقیوں سے آدھ گھنٹے پہلے جگا دیا کرے تاکہ وہ معمول کے کاموں سے پہلے، جہاں کہیں رضاکارانہ خدمات چاہیے ہوں، کر پائے۔ ہر مشکل، ہر کمی کجی کے لئے اس کا ایک ہی جواب تھا، ’میں مزید محنت کروں گا‘۔ یہ وہ مقولہ تھا جو اس نے اپنا رکھا تھا۔

مگر ہر کوئی، اپنی بساط بھر کام کرتا تھا۔ جیسا کہ، مرغیوں اور بطخوں نے، پِڑھ کر کے، پانچ، باٹے، مکئی اکٹھی کی تھی۔ کسی نے بھی کچھ نہیں چرایا، کوئی حصہ رسد پہ نہ بڑبڑایا، فساد، کٹ کھنا پن اور حسد، جو گئے وقتوں میں باڑے کے معمولات ہی تھے، اب سرے سے غائب تھے۔ کوئی، تقریباً کوئی بھی نہیں چلایا۔ یہ سچ ہے کہ مولی صبح اٹھنے میں آنا کانی کرتی تھی اور کام چھوڑ کے بھاگنے کو ایک راہ نکالے ہوئے تھی کہ، میرے کھر میں کنکر چبھ گیا ہے۔ اور بلی کا رویہ کچھ عجیب سا تھا۔ دیکھا یہ گیا کہ جب کوئی کام ہوتا تھا، بلی کہیں نظر نہ آتی تھی۔ وہ گھنٹوں کے لئے غائب ہو جاتی تھی، پھر کھانے کے اوقات پہ آ موجود ہوتی تھی یا شام کو جب سب کچھ نمٹ چکا ہوتا تھا، ایسے واپس آجاتی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ لیکن وہ ایسے اچھے بہانے گھڑتی تھی اور ایسی محبت سے خرخراتی تھی کہ اس کی اچھی نیت پہ یقین کرنا نا ممکن سا ہو جاتا تھا۔

بوڑھا بنجامن، گدھا، انقلاب کے بعد بھی ذرا نہ بدلا تھا۔ وہ اپنا کام اسی، سست اور ہٹیل انداز میں کرتا تھا جیسا کہ جانی صاحب کے دور میں اس کا وتیرہ تھا، نہ چلایا اور نہ ہی کبھی، کسی اضافی کام کے لئے، رضاکارانہ، رضامندی ظاہر کی۔ انقلاب اور اس کے نتائج کے بارے میں، اس نے کسی رائے کا اظہار نہ کیا۔ جب پوچھا جاتا کہ، اب جبکہ جانی جا چکا ہے تو کیا وہ زیادہ خوش نہیں، وہ بس اتنا کہتا، ’گدھے بڑا لمبا جیتے ہیں، تم میں سے کسی نے کبھی کوئی مردہ گدھا نہیں دیکھا ہو گا۔ ‘ کہنے والوں کو، اسی منحوس جواب پہ گزارا کرنا پڑتا تھا۔

اتواروں کو، کوئی کام نہ ہوتا تھا۔ ناشتہ روز سے ایک گھنٹہ تاخیر سے ہوتا، ناشتے کے بعد ایک تقریب ہوتی جو ہر ہفتے، بغیر تعطل کے ہوتی تھی۔ پہلے، پرچم کشائی ہوتی تھی۔ سنوبال کو، ساز و رخت رکھنے کے کمرے میں، بیگم جانی کا لال سبز پٹیوں والا، پرانا میز پوش مل گیا تھاجس پہ اس نے سفید رنگ سے، کھر اور سینگ بنا لئے تھے۔ یہ، جھنڈا، ہر اتوار کی صبح، مکان کے باغ میں ڈنڈے پہ چڑھا یا جاتا تھا۔ جھنڈا سبز تھا، اس کی وضاحت سنو بال کرتا تھا کہ یہ انگلستان کے سبز کھیتوں کی علامت ہے اور، اس پہ، کھر اور سینگ، جمہوریہ جانور کی علامت ہیں جو اس وقت قائم ہو گی، جب آخر کار آدم کا تخت گرا دیا جا ئے گا۔ پرچم کشائی کے بعد تمام جانور، بڑے گودام میں جلسۂ عام کی صورت جمع ہوتے تھے، جسے‘ اجلاس‘ کہا جاتا تھا۔ یہاں اگلے ہفتے کا کام طے کیا جاتا تھا اور قرار دادیں پیش کی کر کے ان پہ بحث کی جاتی تھی۔ ہمیشہ ہی سؤر قرار داد یں پیش کرتے تھے۔ باقی جانوروں کو رائے دہی کی تو سمجھ آگئی تھی لیکن کبھی کوئی قرارداد خود نہ سوجھی تھی۔

ابھی تک، سنو بال اور نپولین ہی مباحثوں میں سب سے زیادہ مستعد تھے۔ مگر یہ محسوس کر لیا گیا تھا کہ یہ دونوں کبھی متفق نہیں ہوتے تھے۔ جو بھی تجویز ان میں سے کوئی ایک دیتا، دوسرا مخالفت میں ہی کھڑا ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ جب یہ بات ہوئی، جس پہ کسی کو اعتراض نہ تھا کہ، پھلوں کے باغ کے پچھواڑے کی تلیا، بوڑھے اور کام کی عمر پھاندے جانوروں کی آرام گاہ بنا دی جائے گی تو اس پہ ایک طوفانی بحث چھڑ گئی کہ ہر طبقے کے جانوروں کی ریٹائرمنٹ کی درست عمر کیا ہونی چاہیے۔ اجلاس، ہمیشہ، ’وحوشِ انگلستان‘ کا ترانہ گانے پہ ختم ہوتی اور سہ پہر، تفریح میں گزرتی۔

سؤروں نے ساز و رخت رکھنے کا کمرہ، اپنے مستقر کے طور پہ چن لیا تھا۔ یہاں شاموں کو وہ مکان سے لائی ہوئی کتابوں سے لوہے کا کام، قالین بافی اور دیگر اہم فنون سیکھتے تھے۔ سنو بال نے دیگر، جانوروں کی، ’حوش کمیٹیاں‘ بنانے کی مصروفیت بھی پال رکھی تھی۔ اس کام میں وہ ان تھک محنت کر رہا تھا۔ اس نے مرغیوں کے لئے، ’انڈہ باز کمیٹی‘، گائیوں کے لئے ’ستھری پونچھ تنظیم‘، ’لیمِ جنگلی حیات کمیٹی‘( جس کا مقصد، جنگلی چوہوں اور خرگوشوں کو سدھانا تھا )، ’پید اوون کمیٹی برائے بھیڑ‘، دیگر کمیٹیاں اور پڑھنا لکھنا سکھانے کی کئی جماعتیں قائم کر رکھی تھیں۔

مجموعی طور پہ یہ سب کمیٹیاں ناکام تھیں۔ مثلاً، جنگلی جانوروں کو سدھانے کی کاوش سب سے پہلے ناکام ہوئی۔ وہ بہت حد تک پہلے جیسے ہی رہے اور جب ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آیا جاتا تو اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے۔ بلی نے ’تعلیمِ جنگلی حیات‘ کی تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور کئی روز تک اس میں بڑی سرگرم رہی۔ ایک روز اسے ایک چھت پہ بیٹھے اپنی پہنچ سے دور کچھ چڑیوں سے باتیں کرتے دیکھا گیا۔ وہ انہیں بتا رہی تھی کہ اب سب جانور، کامریڈز ہیں اور جو چڑیا چاہے اس کے پنجے پہ آ کے جھول سکتی ہے، لیکن چڑیوں نے اپنا فاصلہ برقرار رکھا۔

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج۔ تبدیلی کا سات نکاتی منشورجانور راج- قیادت کے لئے کھانے پینے کی اہمیت

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).