وہ لڑکی حسینی برہمن تھی اور میں شیعہ


میں نے دیکھ لیا تھا کہ اس کی بائیں ہاتھ کی منگنی کی انگلی خالی ہے، میرے دل میں جیسے کوئی زور زور سے چیخ پڑاتھا کہ یہی ہے جسے تم کو اپنانا ہے۔ ہم نے فون نمبروں کا تبادلہ کیا۔ دوپہر کا کھانا کولمبیا یونیورسٹی کے باہر ایک اچھے سے ریسٹورانٹ میں ساتھ ہی کھایا۔ وہ بلا کی ذہین تھی، اس کے حسن، ذہانت، کشش اور بات کرنے کے انداز میں بالکل فطری قسم کی بے ساختگی تھی۔ مجھے کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس سے عشق ہونے میں میرا کوئی اختیار نہیں تھا۔

پھر ہم ملتے رہے، سنٹرل پارک کے کسی گوشے میں، مین ہٹن کے کسی ریسٹورانٹ میں، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی آخری منزل پر، گھومتے ہوئے کافی ہاؤس میں، ہڈسن دریا کی موجوں میں کشتی رانی کرتے ہوئے، آزادی کے مجسمے کے پیروں پر کھڑے ہوکر مستقبل کے خوابوں کوبُنتے ہوئے، نیویارک کی پبلک لائبریری کی سیڑھیوں پر گھنٹوں بیٹھے باتیں کرتے رہے، اپنے اپنے پروجیکٹ کے بارے میں، ہندوستان پاکستان کے بارے میں، اپنی اپنی زندگیوں کے بارے میں۔

اسے بھی مجھ سے محبت ہوگئی۔ کاش دنیا اتنی آسان ہوتی۔ ایک عورت، ایک مرد، ایک لڑکا ایک لڑکی، دو محبت کرنے والے، ساتھ چلنے کے خواب دیکھنے والے، دو پریمی ایک دوسرے سے ملتے ایک دوسرے سے محبت کرتے اور پھر ایک دوسرے کے ہوجاتے، نہ سماج کا کوئی مسئلہ ہوتا نہ دین دھرم کی رکاوٹیں ہوتیں، نہ خاندان اور ذاتوں کے بکھیڑے ہوتے اور نہ ہی بزرگوں اور بزرگی کے مطالبے ہوتے۔ مگر دنیا آسان نہیں ہے اور صدیوں کے بنے ہوئے قانون اصول روایت ٹوٹے نہیں ہیں۔ میں مسلمان، شیعہ، ہندوستانی جس کا خاندان پاکستان سے آکر امریکہ میں بس گیا تھا اور وہ ہندو تھی ایبٹ آباد کی جس کا خاندان تقسیم ہندوستان کے بعد سے دہلی میں رہتا تھا اور وہ نیویارک میں پی ایچ ڈی کررہی تھی۔

پاپا نے کیمبرج یونیورسٹی انگلینڈ سے فزکس میں پی ایچ ڈی کیا، اس کے بعد کراچی واپس آکر یونیورسٹی میں ملازم ہوگئے۔ دادی نے بتایا کہ جب گئے تواچھے خاصے تھے واپس آئے تو دہریہ ہوکر آئے۔ نہ نماز، نہ روزہ، نہ مجلس نہ ماتم جو منھ میں آتا بک دیتے، نہ بڑوں کا خیال نہ بزرگوں کی عزت، نہ سادات کا احترام اور نہ ہی شامِ غریباں کا تقدس۔ سوال ایسے کرتے کہ یہ سوچ کر گِھن آتی کہ کسی کے ذہن میں اس قسم کا انتشار بھی ہوسکتا ہے۔

پھر دادی کے بقول ان کی دعاؤں نے بڑا کام کیا۔ یکایک پاپا نے وہ سب کچھ شرو ع کردیا جو ایک نارمل شیعہ کرتا ہے۔ مجلس، ماتم، جلوس وغیرہ وغیرہ۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاپا کٹّر شیعہ ہوگئے، میرے خیال میں یہی ہونا تھا ایک دن۔ اقلیت کے سمجھدار لوگ ایسے ہی ہوجاتے ہیں جو شاید اکثریت کے جبر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پاپا پر کراچی میں ایک حملہ ہوا، ان کی قسمت تھی کہ وہ بچ گئے۔ کراچی میں تو کئی شیعوں کی جان اسی طرح سے گئی تھی۔ ڈاکٹر انجینئر صحافی اگر شیعہ تھا اور مذہبی تھا تو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔

جعفری انکل کی کوششوں سے پاپا کو ورجینیا میں ان کی ہی کمپنی میں نوکری مل گئی اور ہمارا خاندان ورجینیا آگیا تھا۔ ورجینیا بہت خوبصورت جگہ ہے، سرسبزو شاداب، اچھے اسکول، کھلی کھلی سڑکیں، شاندار عمارتیں، کراچی کی طرح کی وحشت نہیں ہے وہاں پر۔ ہر شہر کسی اصول کے تحت بنایا گیا ہے، یہاں تک کہ پرانے شہر کی پرانی پرانی، پتلی پتلی سڑکوں پر بھی ٹریفک رواں ہی رہتی ہے۔ پرانی عمارتوں کو عزّت سے محفوظ رکھا گیا ہے، کھیل کے میدان کھیل کے میدان ہیں۔ باغ اورپارکوں کو باغ اور پارک ہی بنا کر رکھا گیا ہے اور اسکولوں میں تعلیم دی جاتی ہے، نفرت نہیں سکھائی جاتی۔ صحتمند زندہ دل شہری بنائے جاتے ہیں جو امریکہ سے محبت کرتے ہیں نفرت نہیں۔

پاپا امریکہ آکر کچھ زیادہ ہی شیعہ ہوگئے۔ ایک خاص حد تک تو میں ان سے بحث کرلیتا مگر میں نے محسوس کیا کہ اعتقاد کے سلسلے میں بہت رجڈ ہوگئے۔ تمام تر تعلیم اور پی ایچ ڈی کے باوجود مذہب کے معاملے میں وہ کسی کٹھ مُلّا کی طرح کے ہی مُلّا تھے اور ایک بڑی خرابی یہ ہوگئی کہ ان کی نظر میں شیعوں کے علاوہ کوئی بھی صحیح نہیں تھا۔ سُنّی بھی شاید اسی طرح سے سوچتے ہوں گے۔

میں اکثر سوچتا کہ پاپا دہریہ کیسے ہوگئے تھے، میرے خیال میں تو وہ دہریہ کبھی بھی نہیں ہوئے۔ وہ کیمبرج میں ری ایکشنری بن گئے ہوں گے جو عام طور پر باہر والوں کے ساتھ ہوتا ہے اور جب کیمبرج کا ماحول بدل گیا تو پاکستان میں بھی ری ایکشنری ہوگئے۔ امریکہ میں تو نظام ہی مختلف تھا۔ ہر کوئی اپنی اپنی دنیا میں گم، نظام میں اتنا دم تھا کہ ہر ایک کو برداشت کرلیتا۔ کیا سُنّی، کیا شیعہ، کیا مسلمان، کیا یہودی۔ قانون ہر ایک کے لیے ایک ہی تھا اور زندہ بھی ہر ایک کو رہنا تھا۔

پاپا نے صاف منع کردیا، میں تمہاری شادی سنّیوں میں نہیں کروں گا یہ لڑکی تو ہندو ہے۔ اِن سے ہمارا کیا میل جول ہوسکتا ہے۔ دوستی، یاری، جان پہچان، ملنا جلنا الگ بات ہے لیکن شادی رشتہ داری اسی وقت ممکن ہے جب وہ اسلام قبول کرلے، مسلمان شیعہ ہوجائے دل سے۔ یہ بھی صرف اس لیے کہ تم اسے چاہتے ہو، نہ جانے کیوں اس کی محبت میں گرفتار ہوگئے ہو اور میرے لیے راستہ تم نے چھوڑا کہاں ہے اصل میں تو میری خواہش یہی ہے کہ تمہاری شادی کسی اچھے خاندان میں ہو، اپنے سادات میں ہو۔

مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ گائتری کو بتاتا کہ پاپا نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ انہیں کسی صورت بھی یہ رشتہ قبول نہیں ہے اور نہ ہوگا، میں ایک عجیب دوراہے پر آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ اسے جلد ہی میری پریشانی کا اندازہ ہوگیا تھا۔ ہم ملتے رہے، باتیں کرتے رہے، اپنے پروجیکٹ کی، تھیسس کی۔ بادشاہ ڈیوڈ کے زمانوں کی، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے جنگی حالات کی، ملکہ شیبا کے محلاتی سازشوں کی مگر جو بات کرنی چاہئیے تھی وہ ہی نہیں کرسکے، جس بات پر ہماری زندگی کا محور تھا، وہی بات ہماری باتوں میں نہیں تھی، میں سوچتا رہا اور وہ بھی سوچتی رہی۔ میں بھی بھٹکتا رہا وہ بھی بھٹکتی رہی۔

وہ دن مجھے یاد ہے ہم دونوں اس خزاں کی شام، سینٹرل پارک میں سوکھے پتّوں سے بھری ہوئی راہوں پر آہستہ آہستہ چل چل کر جب تھک گئے تو ایک بڑے سے پرانے سے درخت کے نیچے لکڑی کی بنی ہوئی ایک بنچ پر بیٹھ گئے تھے۔ باتوں باتوں میں نہ جانے کیسے یکایک گائتری مجھ سے پوچھ بیٹھی کہ بادشاہ ڈیوڈ کے بارے میں تو تمہیں بہت پتہ ہے تمہیں پنجاب کے راہب کے بارے میں بھی کچھ معلومات ہیں۔
میں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3