وہ لڑکی حسینی برہمن تھی اور میں شیعہ


”نہیں مجھے پتہ نہیں ہے اس کے بارے میں کچھ۔ ‘‘ میں نے پھر اپنی لاعلمی کا اعتراف کیا تھا۔ کون تھا راہب اور کیا کیا تھا اس نے پنجاب میں کہ میں اسے یاد رکھوں۔ اس کے بارے میں جانوں۔
”سچ یا جھوٹ کا مجھے پتہ نہیں ہے لیکن کتابوں میں جو لکھا ہے وہ ہماری روایتوں میں جو روا ہے بتارہی ہوں تمہیں۔ ‘‘ اس نے پھر آہستگی سے گنے چنے الفاظ میں کہا، ”چودھری راہب چند ٹیکسلا ایبٹ آباد کے علاقے کا سوداگر تھا جس کی تجارت ہندوستان سے عراق اور شاید اور بھی جگہوں تک تھی۔ وہ کربلا کے واقعے کے وقت کربلا میں موجود تھا۔ جانے کیسے وہ امام حسین کی دوستی میں ان کی جانب سے یزید سے لڑگیا۔ اس لڑائی میں راہب چند کے دو بیٹے قتل ہوگئے تھے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے امام حسینؓ نے راہب چند دت سے یہی کہا تھا کہ وہ ہندوستان لوٹ جائے، راہب اپنے باقی ماندہ بیٹوں اور اہل خانہ کے ساتھ ہندوستان لوٹ آیا تھا، کہتے ہیں کہ راہب کا خاندان ان علاقوں میں پلا بڑھا اور اپنے علاقوں میں دت برادری کی حکمرانی قائم کی۔ یہ سارے لوگ حسینی برہمن کہلاتے ہیں کیونکہ محرم کے دس دنوں میں صرف حسینؓ کی یاد مناتے ہیں۔ ‘‘ میرے لیے یہ بالکل نئی اطلاع تھی، کسی مجلس، مذاکرہ، شیعوں کی محفلوں میں یہ بات میں نے نہیں سنی تھی۔

”ہم لوگوں کے آبا و اجداد سکندر اعظم کے ساتھ آئے اور یہیں آباد ہوگئے۔ کچھ پتہ نہیں ہے کیوں اور کیسے انہوں نے اپنے اجداد کا مذہب چھوڑا، کچھ لوگ ہندو ہوگئے اور کچھ بدھسٹ۔ راہب چند کربلا سے آکر حسینؓ کی محبت میں ایسے ڈوبے کہ حسینی برہمن کہلانے لگے۔ ندیم اپنی تاریخ اور اپنے ارادوں کی پختگی کے ساتھ، ایک کمٹمنٹ تھا ان میں۔ کمٹمنٹ اس بات کا کہ وہ ظلم کے خلاف مظلوم کی حمایت میں حسین کے یزید سے لڑگئے۔ پنجاب کے دت لوگوں نے ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے مذہب نہیں بدلا اورجب جنگ ختم ہوگئی تو اس بے انصافی کو بھولے نہیں۔ حسینی برہمن بن گئے۔ “

وہ یہ سب کچھ کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئی۔ سینٹرل پارک کے چاروں طرف اس نے ایسے دیکھا جیسے کچھ تلاش کررہی ہے۔ ایک جگہ پر اس کی نظر رک گئی۔ رُکی رہی خاموش نظروں میں جیسے دور تک دیکھنے کی کوشش کررہی ہے، اپنے دماغ میں موجود ویرانوں میں جھانک رہی ہے۔ پھر آہستہ سے بولی ”میں اپنے دادو سے ایسے ہی قصے سن سن کر بڑی ہوئی ہوں۔ بہادری کے قصے، راہب چند کے دو بیٹوں کے قتل کے قصے، ہندو دھرم میں حسین کے قصے اور دت لوگوں کے بارے میں روایتیں۔ ان کی عزّت سے متعلق داستانیں اور لوک گانوں میں ان کا ذکر۔ بچپن جوانی میں یہی سب کچھ سنتی رہی ہوں میں۔ حکایتیں، نہ جانے کیا کچھ۔

واہ دت سلطان
ہندو کا دھرم
مسلمان کا امام
آدھا ہندو آدھا مسلمان‘‘

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی، تھوڑی دیر کے لیے سر جھکائے نہ جانے اپنے پیروں پر کیا تلاش کرتی رہی، میں سوچ میں گم اس کو تکتا رہا تھا۔ پھر اس نے بڑے غور سے مجھے دیکھا۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۔ اُس کے پنجابی چہرے پر بلاکی خوبصورتی تھی، آنکھوں میں چمک اور لہجہ ایسا ہی جیسا ڈاکٹر ریبکا بروڈسکی بولتی تھی۔ ”تاریخ۔ مسٹر تاریخ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاریخ سے سیکھنا چاہئیے مگر سیکھتا کوئی نہیں۔ ‘‘

”ندیم، میرے باپ دادا کے پرکھوں نے جان دے دی ظلم کے خلاف ایک ایسے آدمی کے لیے جو اُن کا بھائی نہیں تھا، ان کا ہم مذہب بھی نہیں تھا ان کا ہم سفر بھی نہیں تھا۔ ایک اصول کی جنگ میں باہر کا ایک سپاہی تھا صرف۔ لیکن مذہب نہیں بدلا ان لوگوں نے۔ اپنے دھرم پر قائم رہے۔ سچ کا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔ انصاف ہندو مسلمان نہیں ہوتا۔ میں انہی لوگوں کی اولاد ہوں تمہارے گھر والوں کو مجھے ایسے ہی قبول کرنا ہوگا جیسے میں تمہیں ویسے ہی قبول کررہی ہوں جیسے تم ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3