معاشرے میں بڑھتی ہوئی جنسی بے راہروی اور خواتین کا استحصال


پچھلے دنوں ایک تحریر نظر سے گزری تو اپنے تئیں یہ ضروری سمجھا کہ میں بھی اس سلسلہ میں اپنی کچھ گزارشات پیش کروں۔ ہم میں سے اکثریت معاشرے میں پھیلی بے راہ روی اور بگاڑ سے شاکی ہے۔ جس کو دیکھو ان گنت مسائل کی گٹھڑی لے کے پھر رہا ہے۔ مسائل کی نشاندہی ہم سب کر رہے ہیں لیکن ان مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ یا شاید ہم ان کا حل تلاش ہی نہیں کرنا چاہتے۔ زیرنظر الفاظ سے نہ تو کسی صنف کی دل آزاری میرا مقصد ہے اور نہ ہی میں کسی صنف کی وکالت کر رہا ہوں۔

ان مسائل میں سے دو مسائل ایسے ہیں جو کہ گمھبیر صورتحال اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ایک معاشرے میں بڑھتی ہوئی جنسی بے راہ روی اور دوسرا خواتین کا استحصال۔ اور در حقیقت یہ دونوں مسائل کسی حد تک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بھی ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو مان لینا چاہیے کہ یہ مسائل کہیں باہر سے ہم پہ مسلط نہیں کیے گئے بلکہ ہم ان کے کافی حد تک خود ذمہ دار ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ مسائل کی نشاندہی تو ہم کرتے ہیں۔ لیکن نہ تو کبھی حکومتی سطح پر ان کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی (کیونکہ ہر حکومت کو عوامی مسائل سمجھنے اور ان کے حل کے لئے درکار قوانین وضع کرنے کی بجائے اپنی بقا اور استحکام کی فکر لاحق رہتی ہے اور جو تھوڑا بہت وقت بچتا ہے وہ ہمارے سیاستدان اپنی غربت دور کرنے میں صرف کر دیتے ہیں ) اور نہ ہی ہم نے خود معاشرتی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ان کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات کیے۔

ہمارے معاشرے میں جنسی بے راہ روی کے جن نے ایک دم ہی اپنے پنجے نہیں گاڑ دیے بلکہ اس عفریت نے رفتہ رفتہ ہمارے معاشرے کو گرفت میں لیا ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو ترقی یافتہ ظاہر کرنے کے لئے جس طرح اندھا دھند مغرب کی تقلید کی ہے اس سے ہمارے اسلامی معاشرے کہ چولیں تک ہل گئی ہیں اور کیفیت یہ ہو گئی ہے کہ ہم میں سے اکثریت مسلمان ہوتے ہوئے اسلامی اقدار و روایات سے اور قوانین قدرت سے بیزار نظر آتی ہے۔ اسلام دشمنوں نے آزادی اظہارِ رائے کے نام پہ تو کبھی شخصی آزادی کے نام پہ اور کبھی صنفی مساوات کے نام پہ غیر محسوس طریقے سے اپنے نظریات ہمارے ذہنوں میں کاشت کیے اور ہم بہ خوشی ان کی آبیاری پہ تیار ہو گئے۔ اور اس میں کسی صنف کی تخصیص نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے کے مرد نے اپنا حصہ ڈالا اور عورت نے اپنے حصے کا کام کیا۔

ہم جب کہتے ہیں کہ اسلام دینِ فطرت ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ تا قیامت انسانیت کی راہنمائی اور نجات کا واحد آفاقی ذریعہ ہے۔ اسلام میں انسان کے ہر سوال، ہر مسئلے اور ہر پریشانی کا نہایت شافی علاج موجود ہے۔ اسلام نے جنسی بے راہ روی سے بچنے کے لئے کچھ اصول و ضوابط وضعکیے ہیں۔ پردہ، محرم نا محرم کا تصور، نکاح میں آسانی، نکاح میں غیر ضروری تاخیر سے ممانعت، نگاہ اور زبان کی حفاظت اور بے ہودہ گوئی اور فواحش سے کنارہ کشی ایسے عوامل ہیں جو اس کی راہ میں سد کی طرح حائل ہو سکتی ہیں۔ لیکن میں یہ سوال آپ پہ چھوڑتا ہوں کہ ہم میں سے کون ان پہ کتنا عمل پیرا ہے؟

اسلام نے پردے کا اصول کسی ٹھوس بنیاد پہ ہی وضع کیا ہے لیکن اگر میرے معاشرے کی خواتین خود ہی اس اصول کے خلاف صف آرا ہو کر اس کو اپنی شخصی آزادی میں حائل رکاوٹ خیال کریں تو میں کس کو قصوروار ٹھہراوں جب کوئی مرد ان کو گھورتا ہے؟ اس کی مجال ہی نہیں ہے کہ وہ اگر باپردہ ہوں تو کوئی ان کو گھورے یا وہ گھر کی چاردیواری میں ہوں اور وہ ان کو گھورنے ان کے گھر چلا جائے۔ عورت کا استدلال ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ لیکن جب اس کے تعیں اس کے پردہ کرنے یا نہ کرنے پہ جبر نہیں ہے تو اس مرد کی نگاہ کو بھی تو کوئی جبر کر کے اسے گھورنے سے باز نہیں رکھ سکتا۔

مجھے بے اختیار مصر کے ایک بوڑھے دیہاتی کی زبان سے نکلے ہوئی تاریخی الفاظ یاد آ جاتے ہیں جو اس نے ایک نیم برہنہ عورت (جوکہ مسلمان تھی) کے شوہر سے کہے تھے کہ ” بیٹا تمہاری اہلیہ کے جسم کے جو حصے لباس کے پردے میں ہیں ان پہ تمہارا حق ہے لیکن اس کے بدن کے جو حصے عیاں ہیں ان پہ ہم دیکھنے والوں کا حق ہے کہ آپ کی اہلیہ نے ان کو کھلا ہی اسی لئے رکھا ہے کہ وہ اوروں کو نظر آئیں ‘‘ ہم بہ حیثیتِ مسلمان کچھ حدود و قیود کے پابند ہیں اور ان پہ عمل پیرا ہونا ہمارے فائدے میں ہے لیکن جب ان حدود کو ہم پامال کرتے ہیں تو لا محالا اس کا نقصان بھی ہمیں ہی اٹھانا پڑتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3