کیا یورپ اور منگول مسلمانوں کے زوال کے ذمہ دار ہیں؟


ڈاکٹر محمد عمر چاپرا ماہر اقتصادیات ہیں۔ سعودی عر ب کے جدہ کی اسلامی ڈیولپمینٹ بینک کے اسلامی ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ مسلمانوں کے زوال پر انہوں نے ایک کتاب مسلم تمدن:زوال کے اسباب اور اصلاح کی ضرورت لکھی ہے۔ کتاب میں ان وجوہات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو مسلمانوں کے زوال کا سبب بنے۔ اس کتاب میں کئی اہم سوالات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جو غورطلب ہیں۔ یوں تو ہمارے یہاں مسلمانوں کے زوال کے اسباب کا جامع تجزیہ کرنے کی کوشش ہی بہت کم ہوئی ہے۔ اگر کبھی کسی نے اس کا جائزہ لیا بھی تو اس میں پریشانی یہ رہی کہ تجزیہ نگار نے پہلے سے قائم اپنی رائے کو ثابت کرنے کی کوشش میں ساری توانائی لگا دی۔

ایک دوسرا قبیلہ ان تجزیہ نگاروں کا رہا جنہوں نے زوال کا سارا ملبہ مغرب اور اسلام مخالف قوتوں پر الٹ دیا۔ ان دونوں نظریات کے سبب درست وجوہات کی کھوج مشکل ہو گئی۔ اسلام دشمن قوتوں کو مسلمانوں کے زوال کا ذمہ دار قرار دینے والا نقطہ نظر اس حد تک تو صحیح تھا کہ اس نے ان سازشوں کی گرفت کی جنہوں نے مسلمانوں کو ڈبونے میں اہم کردار نبھایا لیکن اس نقطہ نظر کا ایک نقصان یہ ہوا کہ اس نے مسلمانوں کو اس پورے مقدمہ میں یکسر بری کر دیا۔ اس سے خوداحتسابی کے دروازے بند ہو گئے۔ ڈاکٹر چاپرا نے یورپ کے سامراج کو مسلمانوں کے زوال کا ذمہ دار بتانے اور منگولوں کے ہاتھوں مسلم اکثریتی علاقوں میں تباہی مچانے کو مسلمانوں کے زوال کی کلیدی وجہہ ماننے کے نظریات کو مدلل ڈھنگ سے پرکھا ہے۔ انہوں نے جو اپنے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ یہ دونوں ہی چیزیں مسلمانوں کے زوال کی اکلوتی، سب سے بڑی یا کلیدی وجہہ قرار نہیں دی جا سکتیں۔ اس سلسلہ میں مفصل بحث کے لئے ڈاکٹر صاحب کی کتاب دیکھی جا سکتی ہے۔ آئیے ہم ان دونوں موقف کو پرکھنے کی کوشش کریں۔

اس سوال پر ڈاکٹر عمر چاپرا کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ یورپ کے سامراج کو مسلمانوں کے زوال کا ذمہ دار قرار دینا اس لئے غیر منطقی ہے کہ مسلم ممالک پر یورپی نوآبادیات کا سلسلہ 1700 کے بعد کا قصہ ہے جبکہ اسلامی ثقافت کی چولیں 1300 اور 1400 میں ہی ڈھیلی ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ڈاکٹر چاپرا کے موقف کے ساتھ اس سلسلہ میں چند نکات اور ذہن نشین رہنے چاہئیں تاکہ مقدمہ کو سمجھنے میں آسانی ہو اور کسی منطقی نتیجہ پر پہنچا جا سکے۔

سب سے پہلے تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلمانوں کا زوال اور یورپ کا عروج ان دونوں کے رویوں کے فرق سے بڑی حد تک بندھا ہوا ہے۔ مسلمانوں نے جو رویہ اپنایا اگر وہ یورپ اپنا لیتا تو اس کو بھی اسی حال سے دوچار ہونا پڑتا جو مسلمانوں کا مقدر ٹھہرا اور اگر مسلمان یورپ کی طرح آگے بڑھتے تو پھر عروج ان کے حصہ میں آتا۔ اب سوال یہ کہ وہ رویے تھے کیا، جو ہماری دانست ان دونوں قوموں کے عروج یا زوال کا سبب ٹھہرے؟ بہت سے ماہرین نے ان رویوں پر تفصیلی کام کیا ہے جو انٹرنیٹ پر آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

ان ماہرین میں سے جمہور کی رائے ہے کہ مسلمانوں نے جنگی فتوحات کے نتیجہ میں اپنا آج تو بنا لیا لیکن آنے والے کل سے وہ مسلسل آنکھ بند کیے رہے۔ وسائل ہونے کے باوجود ساری توانائیاں غیر ضروری مشاغل میں صرف ہوئیں۔ درباروں میں ایسے لوگوں کو جگہیں ملیں جو مسلمانوں کے خیر خواہ ہونے سے زیادہ حاکم یا خلیفہ کے خوشامدی تھے۔ ان درباروں اور محلات کی اونچی اونچی دیواروں کے درمیان ایسے نہ جانے کتنے مشورے دیے جانے سے پہلے ہی دم توڑ گئے جو آنے والے کل کی منصوبہ بندی سے متعلق تھے۔

درباری علماء کو ڈر تھا کہ ظل اللہ کو کہیں یہ بات ناگوار نہ گزرے۔ اگر کہیں توجہ تھی تو تلواریں تیز کرنے پر، گھوڑوں کے چنے گھاس پر یا پھر خوشامدیوں کی منہ بھرائی پر۔ اس پورے کاروبار میں کس کو پرواہ تھی کہ اس قوم کی خبر لے جس کے اور حاکم کے درمیان موٹی دیواریں حائل تھیں۔ کیا آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ کئی کئی صدیوں تک خلافت کے نام پر چلنے والی سلطنتوں کے آج صرف قلعوں اور مقبروں کے کھنڈرات ملتے ہیں، بڑی بڑی دانش گاہوں، یونیورسٹیوں، تجربہ گاہوں، لائبریریوں اور مدرسوں کے نہیں۔

خلافت کے نام پر بادشاہت کس طرح کھلے عام اپنا رنگ دکھا رہی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ عراق کے حاکم حجاج بن یوسف کو عاملوں نے لکھا کہ ذمی لوگ مسلمان ہو رہے ہیں اور جزیہ سے ہونے والی آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے۔ حجاج نے حکم دیا کہ ان لوگوں پر مسلمان ہونے کے باوجود جزیہ لگایا جائے۔ ان لوگوں پر ٹیکس لگایا گیا اور انہیں بھرنا پڑا، جبکہ اسلام کا حکم واضح تھا کہ مسلمانوں پر یہ ٹیکس لگایا ہی نہیں جا سکتا تھا لیکن جب جنبشِ ابروئے شاہاں کو سمجھنا ہی دانشمندی کی نشانی بن جائے وہاں کس درباری عالم یا فقیہ کو فرصت تھی کہ صاحبِ عالم کو بتاتا کہ سرکار آپ کا حکم اللہ کے حکم کو روند رہا ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ ٹیکس بند ہوا۔ عمر بن عبد العزیز نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ اللہ نے محمد کو داعی بنا کر بھیجا تھا تحصیلدار نہیں۔

خوشامدیوں کی ساری علمیت حاکموں کے اعمال کی شرعی تاویل میں کھپ گئی۔ اس ہنگام میں کسی کو پراہ نہیں رہی کہ مسلمان زمانے سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے مسلسل پچھڑتے جا رہے ہیں۔ ادھر یورپ، تعلیم اور ترقی کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ کئی تاریخی حقائق میں آپ کو اس بات کی آسانی سے جھلک مل جائے گی کہ مسلمانوں کے ارباب حل و عقد زمانے سے ہم آہنگ ہونا کتنا ناپسند فرماتے تھے۔ پہلے پہل تو تعلیم و ترقی میں دنیا کی ہر اڑان سے آنکھیں بند کرنے کی کوشش ہی ہوتی رہی لیکن جب حالات سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں رہ گیا اور سلطنت کی چولیں ہلنے لگیں تو 1839 میں عثمانی سلطنت نے تنظیمات کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ دراصل اصلاحات کا دور تھا جس میں مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لئے کچھ اقدامات کا اعلان ہوا۔ اس سلسلہ میں یہ مت بھولئے گا کہ عثمانیوں کو یہ خیال 1839 میں آیا یعنی قسطنطنیہ فتح کرنے کے تقریبا چار سو برس بعد۔ ذرا پتہ تو کیجئے کہ اس دوران یورپ میں کیا ہو رہا تھا؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter