مہاراجا: شیمپین سے ناشتہ، وِسکی سے ڈنر


کرنل ہِز ہائی نیس فرزنِد دل بند، راسخ الاعتقاد دولتِ انگلشیہ، راجائے راجگان، مہاراجا سر ر نبیر سنگھ راجندر بہادر جی۔ سی۔ آئی۔ ای۔ کے۔ سی۔ ایس۔ آئی وغیرہ وغیرہ بہرا تھا۔ اس نے 75 سال عمر پائی۔ اس نے اپنے راج کی گولڈن جوبلی تزک و احتشام سے منائی اور اپنی ریاست اور ہندوستان کے عوام کی نہیں بلکہ ہزامپیریل میجسٹی اور برطانوی سلطنت کی خدمات سر انجام دینے پر ہزمیجسٹی شاہِ برطانیہ شہنشاہِ ہندوستان سے اعلیٰ اعزازات حاصل کیے۔

رات کو دیر تک جا گتے رہنا اس کا معمول تھا۔ سہ پہر کو چار بجے اس کی انگریز مہارانی ڈوروتھی اور چند ہندوستانی عورتیں دھیمی آواز میں مدھرگیت گاتے اور اس کی ٹانگیں نرمی سے دباتے ہوئے اسے بیدار کرتی تھیں۔ پھر اس کے لیے بیڈ ٹی لائی جاتی تھی۔

مہاراجا توہم پرست تھا اور رات ہی کو حکم دے دیا کرتا تھا کہ جاگنے پر فلاں فلاں عورت کا منہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اسے یقین تھا کہ اس طرح اگلے 24 گھنٹے اسے خوشی حاصل ہوگی۔ وہ اور ریاستی نجومی پنڈت کرن چند علم نجوم کی کتابیں اور مہاراجا کی جنم پتری سامنے رکھے گھنٹوں ان لوگوں کے نامون پر غور کرتے کہ مہاراجا کو جاگنے کے بعد جن سے پہلے ملنا ہوتا تھا۔

اس کی خواب گاہ کے باہر مہاراجا کا پسند یدہ شخص وزیراعظم سر بہاری لال ڈھینگرا، پنڈت، وزیر داخلہ رام رتن اور دوسرے وزیروں اور وردی پوش سیکرٹریوں سمیت موجود ہوتا۔ مہاراجا کے محل کو ”حجرا“ کہا جاتا تھا۔ غبدان نامی بستی کے نام پر اس محل کا نام غبدان بھی مشہور تھا۔ یہ محل شمالی ہندوستان میں واقع اس ریاست کے دارالحکومت سنگرور سے چھ میل کی دوری پر تعمیر کیا گیا تھا۔

جو نہی رنبیر سنگھ تیار ہوتا، اس کی خدمت میں ناشتہ پیش کیا جاتا، جو کہ شیمپین کی بوتل پر مشتمل ہوتا اور درباریوں کو اسے تعظیم پیش کرنے کے لیے اندر لایا جاتا۔ اگر رنبیر سنگھ کا موڈ اچھا ہوتا تو وہ ان سلامی کا جواب مسکراہٹ سے دیتا، بصورت دیگر وہ ان کو یکسر نظر انداز کر دیتا۔

افسروں کو صرف یہی اشارہ کافی ہوتا اور مہاراجا سے ایک لفظ بھی بولے بغیر واپس چلے جاتے۔ شیمپین کے چند گلاس یا چائے کی چند پیالیاں پینے کے بعد مہاراجا ناریل کے تیل کی مالش کرواتا اور فرانسیسی خوشبو ئیں ملے پانی سے نہاتا، کپڑے پہنتا اور مرکزی ڈرائنگ روم میں آ جاتا جہاں اس کی بیوی ڈوروتھی، اس کی بٹییاں اور بیٹے اور ریاست کے چند اہم افسر موجود ہوتے تھے۔ وہ ان کے درمیان بیٹھ کر اپنی پسند یدہ شراب برانڈی کے کئی گلاس پیتا۔

رنبیر سنگھ بہرا تھا لیکن وہ خود سے مخاطب ہونے والوں کے ہونٹوں کی حرکت سے سمجھ جاتا تھا کہ انہوں نے کیا بات کی ہے۔ روزانہ محل کے ڈرائنگ روم میں جمع ہو جانے والے مہاراجا کے گھرانے کے افراد اور ریاستی افسروں اور مہاراجا کے درمیان گفتگو اسی طریقے سے ہوا کرتی تھی۔

تقریبا ساڑھے گیارہ بجے رات کا کھانا پیش کیا جاتا۔ ڈنر کا سلسلہ دو گھنٹے جاری رہتا۔ ڈنر کے بعد مہاراجا چند ریاستی افسروں اور اپنے مہمانوں کے ساتھ تاش کھیلتا۔ اس پسند یدہ کھیل برج اور بلیئر ڈ تھے، جن میں وہ ہزار روپے ہارتا تھا۔ کھیل 4 بجے تک اور بعض اوقات سورج طلوع ہونے تک جاری رہتے۔ اس وقت تک مہاراجا برانڈی کے 25 بڑے جام پی چکا ہوتا تھا، جو کہ اس کا ہر رات کا معمول تھا۔ وہ اپنی دل پسند مہارانی کے ساتھ خواب گاہ میں چلا جاتا اور پھر اگلے روز سہ پہر 4 بجے دکھا ئی دیتا۔

وہ صرف ایک مرتبہ رات کے وقت کھانا کھاتا تھا۔ مہاراجا صرف وائسرائے اور دوسرے ممتاز مہمانوں کی آمد پر ان کی سہولت کے لیے اپنے روزانہ کے معمول میں تبدیلی لایا کرتا تھا۔ جب اسے اپنے معمول کو بدلنا پڑتا تو وہ بہت نا خوش ہوا کرتا تھا لیکن چونکہ وہ شکار کا بے حد شوقین تھا، اس لیے وہ خود کو وقت اور موقعے کی مناسبت سے ڈھال لیتا تھا۔

اسے چیتے کے شکار کا بہت شوق تھا۔ وہ چیتوں کو پالنے اور شیروں سے انہیں لڑوانے کا بھی بہت شوقین تھا۔ پنجروں میں بند چیتوں کو جنگل میں لے جا کر شیروں سے لڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ ان کے درمیان زبردست جنگ ہوتی۔ چیتوں کو بارہ سنگھوں کے غولوں پر بھی چھوڑا جاتا۔

چونکہ چیتے تربیت یا فتہ ہوتے تھے، اس لیے لڑائی کے بعد اپنے پنجروں میں واپس آ جاتے تھے۔ وہ سال کے 365 دنوں میں سے 130 دن شکار میں اور باقی دن دوسرے کھیلوں اور مشغلوں میں گزارتا تھا۔ اسے کتے بہت پسند تھے۔ اس کے مشہور کتا گھر میں بہترین نسلوں کے کتے موجود تھے۔

کبھی کبھار وہ اپنا پروگرام خود بدل دیتا اور دن کے آٹھ بجے ہی جاگ اٹھتا اور ناشتہ کرنے کے بعد سیدھا جنگل جا کر تیتروں، موروں، چکوروں، بیٹروں اور وہاں افراط سے موجود دوسرے پرندوں کا شکار کھیلتا اور دوپہر کے وقت واپس آتا۔

نہانے کے بعد وہ ایک بجے دوپہر کا کھانا کھاتا اور ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد چند دوستوں اور اپنے محل کے کچھ افسروں سمیت دوبارہ شکار کھیلنے چلا جاتا۔ پھر وہ 8 بجے واپس آتا اور گیارہ، بارہ بجے تک اپنے معمول کے مطابق شراب نوشی کرتا۔ وہ وائسرائے اور دوسرے ممتاز مہمانوں سے صرف دوپہر کے کھانے پر ملا کرتا تھا۔ اس نے جھوٹ بول رکھا تھا کہ اس کے طبی مشیروں نے اسے رات کا کھانا نہ کھانے کا مشورہ دیا ہے۔ اس طرح وہ رات کے وقت وائسرائے اور دوسرے ممتاز مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے سے بچ جاتا اور آزادی کے ساتھ برانڈی کے 25 جام پینے کا اپنا معمول پورا کرتا۔

یہ پروگرام گرمیوں اور سردیوں، ہر دو موسمو ں میں، دیکھا گیا۔ گرمیوں کے موسم میں کھنگا چلا جایا کرتا تھا، جہاں نہر کنارے اس کا ایک بنگلہ تھا، جس کے گرد کئی تالاب تھے۔ وہ ہاں مچھلیاں پکڑتا اور اپنے لیے خود کھانا پکاتا تھا۔ سارا دن مچھلیا ں پکڑنے اور کھانا پکانے میں گزر جاتا۔ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ سردیوں کے موسم برعکس گرمیوں کے موسم میں کوئی افسر اس سے کھنگا میں ریاستی امور پر بات نہیں کرے گا۔ وہ خصوصی طور پر یہ چاہتا تھا کہ کھنگا میں اسے ریاستی امور کے حوالے سے پریشان نہ کیا جائے۔

مہاراجا اپنا بیشتر وقت سونے، برانڈی پینے، تاش اور کھیلنے میں صرف کرتا تھا۔ جب ہندوستان کے وائسرائے کی منظوری سے وہ کسی وزیر اعلیٰ کا تقرر کرتا تو زندگی بھر کے لیے اس سے چمٹ جاتا۔ اس کے وزرائے اعلیٰ آمربن جاتے اور وزیر اور دوسرے درباری امرا ء نہایت متکبر ہو جاتے۔

مہاراجا کے پاس انتظام کام کے لیے کوئی وقت نہیں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود اسے وہ تمام اعلیٰ ترین اعزازات اور خطابات حاصل ہو چکے تھے جو کہ شاہِ برطانیہ کسی ہندوستانی راجا کو عطا کر سکتا تھا۔ وہ ہندوستانی سلطنت کا نائٹ کا نائٹ گرینڈ کمانڈر تھا۔ اسے برطانوی حکومت اور شہنشاہ کے پسند یدہ راجا ہونے کی وجہ سے اعلیٰ اعزازی فوجی عہدہ عطا کیا تھا۔

اس کی سب بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ریاستی انتظام میں کوئی مداخلت نہیں کرتا تھا اور اپنا وقت موج مستی میں گزارتا تھا۔ اس نے ریاست کا انتظام انگریز وائسرائے کے آلہ َ کا ر وزیراعلیٰ پر چھوڑ دیا تھا۔ ریاست کا انتظام وائسرائے اور پولیٹکل ڈیپارٹمنٹ کی خواہشات اور احکامات کے تحت چلایا جاتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).