شاہ ایران نے پاکستانی طریقے سے مرغابی ماری


پاکستان میں اعلیٰ حکمرانوں کو شکار کا بہت شوق رہا ہے۔ پانچویں اور چھٹی دہائی میں سندھ اور بلوچستان میں تیتر اور چکور بہت ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ حد قانون سے بالاتر رہنے والے یہ حکمران ہی یہاں شکار کھیلنے پہنچ جاتے، خاص طیاروں یا سڑک کے ذریعے جہاں تک جاتے انہیں کوئی وقت پیش نہیں آتی تھی، جہاں تک پرندوں کو جھاڑیوں سے اڑانے کی بات تھی تو اس کا انتظام مقامی انتظامیہ کر دیا کرتی۔ بلوچستان میں آبادی کم تھی اس لئے فرنٹیٰر کور کے نوجوانون سے یہ کام لیا جاتا۔ ان کی زندگی میں ایسے شاندار مواقع کم ہی آتے تھے اس لئے جب موقع مل جاتا تو وہ کئی کئی دن اس بات کی ریہرسل کرتے کہ کس طرح پرندے کو صدر مملکت کے عین سامنے سے اڑانا ہے۔

ایسے نادر مواقع کے لئے فورس کا مقامی کمانڈنٹ پرندوں کو سارا سارا سال دانہ دنکا کھلاتا تاکہ وہ خوراک کی تلاش میں اڑ کر کہیں دوسرے علاقے میں نہ چلے جائیں۔ کمانڈنٹ نے اپنے اس آپریشن کی منصوبہ بندی خاص اہتمام سے کی ہوتی۔ ان دونوں افغانستان سے کسی تنازعہ کا کوئی خطرہ نہیں تھا اس لئے اس نے زیادہ وقت شکار کے منصوبے پر صرف کیا۔ کیونکہ اگر شکار کامیاب ہو جائے تو کمانڈنٹ کی ترقی بھی آ سکتی اور اگر ترقی نہ ہو تو کم سے کم اس کی صلاحیتوں کا اعتراف ہو جاتا ہے۔ کمانڈنٹ کے علاوہ سول سرکاری افسرڈپٹی کمشنر وغیرہ بھی پیچھے رہنے والے کہاں۔

اب ایسے موقع پر صدر کے قریب رہتے اور جب موقع ملتا ہے انتظامیہ کی کار کردگی اور علاقے میں ہونے والی ترقی کی تفصیل بھی صدر کو بتاتے۔ یہ لوگ کرتے یوں تھے کہ تیتریا چکور تقرپیاً پال لیا کرتے تھے اور خاصی تعداد میں انہیں خاص قسم کی پنجروں میں ڈالتے اور اہتمام یہ کرتے کہ شکاری اتنے تیتریا چکور آسانی سے مار لیں کہ خوش ہو جائیں۔ قانون نے پرندوں کے شکار کرنے کی تعد اد مقرر کر رکھی ہے۔ مگر یہ قانو ن صرف عام شہریوں کے لئے ہوتا ہے۔ ایک ایسے ہی موقع پر جب صدر کے سامنے سے ایک تیتر اڑا تو لوگوں نے دیکھا کہ اس کے پاؤں میں ڈوری بندھی ہوئی ہے۔ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ آگئی بلکہ ہلکی سی ہنسی بھی نکلی مگر صدر صاحب نے اس کا نوٹس ہی نہیں لیا۔

ایک اور موقع پر زیریں سندھ کی ایک جھیل پر شکار کھیلا گیا، شاہ ایران بھی آئے ہوئے تھے ساتھ ملکہ تھیں۔ شاہ کے ساتھ ان کے شکار کا داروغہ بھی تھا جس نے رسمی شکاری لباس بھی پہن رکھا تھا۔ اونچے بوٹ، پیٹیاں اور اس میں کوئی ایک درجن میخیں۔ اعلیٰ میزبانی کا مظاہرہ کیا گیا، یعنی جعلی انداز میں شاہ کے سامنے سے مرغابیاں اڑائی گئیں، پھر جھیل کے کنارے کھانے کا انتظام کیا گیا۔ اس موقع پر گفتگو میں ظاہر ہوا کہ شاہ ایران نے زندگی بھر اس قسم کا شکار نہیں کھیلا تھا۔ شاہ ایک نالی والی پانچ کارتوس والی گن استعمال کر رہے تھے اور توقع تھی کہ اچھی خاصی تعداد میں مرغابیاں گرا لیں گے۔ اہتمام یہ کیا گیا تھا کہ جھیل کے اندر کوئی نصف درجن شکاریوں کو کشتیوں میں بٹھا کر اصل یا تیار کیے گئے بٹ میں پہنچا دیا گیا جو شاہ ایران کی جگہ کے آس پاس ہی تھے۔ شکاریوں کے ایسے پلیٹ فارم اچھا نشانہ لینے میں مددگار ہوتے ہیں۔

مرغابیوں کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ اس لئے شکاری کو خاص مہارت ہو تبھی وہ اڑتی مرغابی کو گرا سکتا ہے۔ یہ آبی پرندے روس کے سائبیریا کے علاقے سے موسم ساما میں نقل مقانی کر کے پاکستان کی طرف ا جاتے ہیں اور پھر موسم گرما میں واپس چلے جاتے ہیں۔ اپنی اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے سمت کا پورا پتہ ہوتا ہے اور اسی بنا پر ان کی پرواز کی رفتار بہت ہوتی ہے۔

شاہ ایران کوئی تین چار گھنٹے اپنی کمین گاہ میں رہے، کوئی ڈیڑھ سو فائر کیے جن سے تیس چالیس پرندوں کا شکار کی بجا طور پر توقع ہوسکتی تھی۔ میرا بٹ یا کمین گاہ شاہ کے قریب ہی تھی، میں نے دیکھا کہ شاہ کا نشانہ لگ نہیں رہا، پرندہ کم ہی گرتا ہے۔ شکار ختم ہوا، لوگ واپس اکٹھے ہوئے۔ دوپہر کا کھانا لگایا گیا۔ صدر اور شاہ کھانا کھا چکے تو صدر کا ملٹری سیکرٹری جو خود بھی بہت اچھا شکاری او ر نشانہ باز تھا ہر شکاری کے شکار کیے پرندوں کے تھیلے لے آیا۔ شاہ صدر شامیانے سے باہر آئے، ملٹری سیکرٹری شاہ کے پاس گیا اور بڑی سنجیدگی سے اعلان کیا ” عزت ماب آپ نے 35 مرغابیاں شکار کیں۔ “ شاہ نے حیرت سے کہا؟ ”کیا؟ میں نے تو ایک مرغابی بھی نہیں گرائی۔ “

ملٹری سیکرٹری نے حاضر دماغی سے کام لیا اور کہا کہ جناب آپ کے نشانے سے زخمی ہو گئی تھیں ذرا دور جا کر گریں وہاں سے اٹھائی گئیں۔ “
شاہ کا د ل نہیں مانا اور وہ مسکرا دیے۔

اسی جھیل پر ایک علاقے کے ایک زمیندار بڑے لوگوں کے شکار کا اہتمام کیا کرتے تھے او ر اہتمام یہ ہوتا تھا کہ مرغابیوں کو خاص طریقے قرینے سے کچھ اس طرح سے اکٹھا کرتے کہ بوقت ضرورت ان کو مہمانوں کے سامنے سے اڑاتے، اور کچھ کا شکار خود ہی کر کے رکھتے تا کہ شکاری مہمانوں کو یہ کہہ کر خوش کریں کہ یہ مرغابیاں بھی انہوں نے گرائی ہیں۔ کوئی شکاری یہ دیکھنے کا تردد نہ کرتا کہ مرغابی کو چھرا کہاں لگا ہے یا کیا کہیں کوئی چھرا بھی لگا ہے کہ نہیں۔ مطلب تو یہ تھا کہ سکور کتنا ہے۔ ہمارے میزبان کا مقصد تو صرف یہ ہوتا تھا کہ کوئی مایوس نہ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).