بائی پولر ڈس آرڈر اور مزاج کے بدلتے موسم


بائی پولر ڈس آرڈر کی لیبارٹری میں تجزیاتی شناخت نہیں کی جاتی۔ یہ مریض محض علامات پر انحصار کرکے تشخیص کیا جاتا ہے لہٰذا اگر کسی شخص میں مرض کی علامات نظر آرہی ہیں تو گھر والوں اور متعلقہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ نفسیاتی معالج کا معالج کرکے مریض کو علاج آ مادہ کیا جائے۔ جی ہاں سب سے بڑا مسئلہ جو علاج میں درپیش ہے وہ مریض کا مرض کو قبول کرنا، مثلاً امریکہ کے مشہور ٹی وی پروگرام کی میزبان جین پولی نے جس کو مرض کا حملہ 40 سال کی عمر کے بعد ہوا، اپنی کتاب میں لکھا ”جب پہلی بار بائی پولر ڈس آرڈر کی تشخیص ہوئی تو میرا پہلا ردعمل ”بے یقینی“ تھا، نہیں مجھے کوئی ذہنی بیماری نہیں ہوسکتی“۔ یہ اتنا پیچیدہ مرض ہے کہ بعض علامتوں کے باوجود بھی مرض کی حتمی شناخت میں اوسطاً سات، آٹھ سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ تشخیص ہونے کے بعد گو مریض اور اہل خانہ کو یہ اطمینان تو ہوجاتا ہے کہ اصل ”مسئلہ کیا ہے“ لیکن اسکے بعدچاہے مریض جتنا بھی مثبت اور بہتر انداز میں سوچے اسکی زندگی میں خطرات اور مشکل حالات کا سامنا ایک ضروری امر ہے جس میں مناسب اور موافق دوا کے انتخاب سے لیکر اچھے سائیکالوجسٹ کی خدمات کا حصول ہے۔ مرض کو قبول کروانے میں خاندان والوں کا حوصلہ افزاءاور ہمدردانہ رویہ بہت ضروری ہے۔ علاج نہ ہونے کی صورت میں زندگی میں آٹھ سے دس حملے ہوسکتے ہیں عموماً پہلے اور دوسرے حملے کے دوران پانچ سال کا وقفہ ہوتا ہے جبکہ اسکے بعد یہ حملے جلدی جلدی بھی ہوسکتے ہیں۔ 60 فیصد افراد بیماری کے دوران ذاتی تعلقات اور ملازمت کے دوران مسائل سے گزرتے ہیں۔

دوا کا انتخاب:

عموماً موافق دوا کے انتخاب کا مرحلہ سب سے زیادہ صبر آزما اور طویل ہوتا ہے۔ یہ ایک تجریاتی دورانیہ ہوتا ہے کہ جس میں مختلف دواﺅں کا تجربہ کرکے سب سے موثر دوا کا انتخاب کیا جاتا ہے اور عموماً یہ دورانیہ ہسپتال میں گزارا جاتا ہے جس کی وجہ سے تعلیم یا ملازمت کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ یہ دورانیہ کبھی کبھی سال سے بھی زیادہ مدت کا ہوسکتا ہے۔ امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے سب سے زیادہ جس دوا کو مستند قرار دیا ہے وہ لیتھیم ہے جسے 1949ءمیں ایک نفسیاتی معالج جون کیڈ نے وکٹوریہ آسٹریا میں پہلے گنی پگ اور بعد میں انسانوں پر آزمایا اور یوں یہ دوا بیسویں صدی کی اہم دریافت قراردی گئی کہ جس کو اگر چند اوردواﺅں کے ساتھ دیا جاتا ہے تو علامات پر جلد ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔ لیتھیم سیروٹین اور نارایپی نیفرین کی ری ایپٹک میں معاون ہوتا ہے اور مینیا اور ڈیپریشن دونوں کی علامات کو قابو پانے میں مدد دیتا ہے۔ تقریباً دو تہائی مریض اس کو استعمال کرتے ہیں لیکن اسکے مضر اثرات گردوں اور تھائیرائیڈ پر ہوتے ہیں۔ ہاتھوں میں کپکپاہٹ، دل کی دھڑکن کی سرعت رفتاری، جسم پر نشانات اور 25 فصد افراد میں وزن کی زیادتی دیکھی گئی ہے۔ لیتھیم (Lithium) نہ لینے کی صورت میں دوسری دوائیں پروزیک (Prozac)، زولوفٹ (Zoloft) اور پیکسل (Paxil) وغیرہ ہیں۔

ہر دوا کے استعمال کے دوران خون میں اسکی مقدار کا باقاعدہ تجزیہ بے حد ضروری ہے تاکہ دوا کی زیادتی کے مُضر اثرات سے محفوظ رہا جاسکے۔ حاملہ خواتین میں دواﺅں کی مقدار میں تخفیف کی جاتی ہے تاکہ بچے کی نشوونما پر اس کا اثر نہ ہوسکے۔ بچے کی پیدائش کے بعد زچہ پر اس بیماری کا شدید حملہ ہوسکتا ہے لہٰذا گھر والوں کی مرض سے مکمل آگہی ضروری ہے تاکہ زچہ اور بچہ کی مناسب دیکھ بھال ہوسکے۔ دوا کے علاوہ سائیکوتھراپی کیلئے ماہر نفسیات کا انتخاب ضروری ہے جس کو کونسلنگ کہا جاتا ہے جس میں گفتگو کے ذریعے مرض کی علامات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسکی اہم قسم (Congnitive Behavior Therapy) ہے کہ جس میں منفی سوچ کو مثبت رویہ میں بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مریض اور اسکی بیماری سے متاثر ہونے والے افراد کیلئے جسمانی مشق یوگا اور مساج بہت مفید ہے۔ اگر دوا اور سائیکوتھراپی کے باوجود مرض پر قابو میں ناکامی ہو تو ڈاکٹر بجلی سے علاج یعنی بجلی کے جھٹکے سے بھی علاج کرتے ہیں کہ جسم میں بے ہوشی کے بعد مریض کے سر میں ٹیپ کی مدد سے الیکٹروڈ لگا دئیے جاتے ہیں اور پھر سیکنڈ سے بھی کم دورانیہ کیلئے برقی رو گزاری جاتی ہے۔ یہ عمل دماغ کی نالیوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور نیورو ٹرانسمیٹر کے تحلیلی عمل میں فرق پڑتا ہے اور علامات میں خاطرخواہ کمی ہوجاتی ہے۔

مروجہ علاج کے علاوہ ایک ترقی یافتہ معاشرے میں جذباتی اور ذہنی آسودگی کیلئے عموماً سپورٹ گروپ تشکیل دئیے جاتے ہیں جو نہ صرف مریض بلکہ اسکے گھر والوں کیلئے مفید ہوتے ہیں اور باہمی اشتراک اور تعاون سے بیماری سے نبردآزمائی کا حوصلہ ملتا ہے۔

گھر والوں کی ذمہ داری:

-1 گھر والوں کی مریض سے غیرمشروط محبت اور اعتماد ضروری ہے۔

-2 باقاعدگی سے دوا کا استعمال اور ماہر نفسیات سے ملاقات کی پابندی بھی ضروری ہے۔

-3 مریض کی علامات پر نظر رکھیں اور بیماری کی صورت میں پیشگی منصوبہ بندی کریں مثلاً کریڈٹ کارڈ، دوائیاں اور دوسری خطرناک اشیاءسے احتیاط برتی جائے۔

-4 مریض کو کوشش کر کے بستر سے نکلنے، نہانے اور صحت مند غذا کھانے کی ترغیب دیں۔

-5 سپورٹ گروپس تشکیل دیں اور جذباتی آسودگی کیلئے گفتگو کا سہارا لیں۔

-6 احساسِ خفت اور جرم سے چھٹکارا پانے کی کوشش کریں۔

-7 مرض اور مریض کو سمجھنے کی نہ صرف خود کوشش کریں بلکہ اپنے ملنے جلنے والوں کو بھی اس کا شعور دیں۔

آخر میں ایک اہم حقیقت کی نشاندہی ضروری ہے کہ دنیا کے مشہور تخلیق کار اس مرض کا شکار تھے لہٰذا موجودہ تحقیق سے یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ یقیناً اس مرض کا تخلیقی صلاحیتوں سے گہرا تعلق ہے۔ 1970ءمیں آیووا یونیورسٹی کی نینسی اینڈرسن نے بتایا کہ 80 فیصد تخلیقی افراد بائی پولر ڈس آرڈر، ڈیپریشن یا ہائپو مینیا کے کم از کم ایک حملہ سے ضرور گزرے ہیں، پھر اسکے بعد ہارورڈ یونیورسٹی کی ماہر نفسیات ڈاکٹر کے ریڈ فیلڈ جیمی سن نے کہ جو خود اس مرض میں مبتلا ہے، رائل اکیڈمی کے فنکاروں پر تحقیق کرکے بتایا کہ ان میں سے 38 فیصد کو بائی پولر ڈس آرڈر تھا۔ اسکی اہم وجہ غالباً مرض کی وہ علامات ہیں کہ جس میں خیالات کی روانی، فکر کی گہرائی کے علاوہ خیالات کے اظہار کی صلاحیت بلاکسی بندش کے نارمل سے زیادہ ہوجاتی ہے اور یوں فن مثلاً مصوری، موسیقی یا ادب کا بحرِ بیکراں ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتا ہے اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ جنون اور تخلیق Creativity and Insanity کا سدا سے گہرا تعلق ہے۔

چند مشہور افراد کے نام مثلاً ہیمنگ وے، گوگین، نپولین بونا پارٹ، لارڈ بائرن، وریجینا وولف، چرچل، رالف والڈو ایمرسن، لیو ٹالسٹائی، بیتھوون وغیرہ وغیرہ ذہن میں لائیں اور پھر سوچئے کہ کہیں ایسے فنکاروں کو آپ نے اپنے درمیان تو نہیں دیکھا؟ اگر ان جیسے تخلیق کاروں اور دوسرے افراد کو ان علامات میں مبتلا پایا ہے تو ان سے تعاون کیجئے اور ان کو صحتمند زندگی بتانے کا حوصلہ دیں، کہ یہ آپ کا فرض اور ان کا حق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4