کیا جناح کی مہلک بیماری کا علم تقسیم ہند کو روک سکتا تھا؟


جناح اور گاندھی

انڈیا کے آخری وائس رائے اور پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ بانی پاکستان محمد علی جناح کی پہلی ملاقات چار اپریل سنہ 1947 کو ہوئی تھی۔ بات چیت شروع ہونے سے پہلے ایک ہلکا پھلکا لمحہ اس وقت آیا جب ایک فوٹو گرافر نے لیڈی ماؤنٹ بیٹن (ایڈوینا) اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ ایک تصویر لینے کی خواہش ظاہر کی۔

جناح نے پہلے ہی سے پریس کانفرنس کا اپنا بیان تیار کر لیا تھا۔ انھیں امید تھی کہ ان کے اور ماؤنٹ بٹن کے درمیان ایڈوینا کی موجودگی میں ایک تصویر لی جائے گی۔ اس کے لیے وہ پہلے سے ہی ایک ‘پنچ لائن’ تیار کر کے آئے تھے۔

سنہ 1978 میں جناح کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ کو دیے گئے انٹرویو میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ‘جب میں نے جناح پر زور دیا کہ وہ میرے اور ایڈوینا کے درمیان کھڑے ہوں تو ان کا ذہن فوری طور پر کوئی نئی پنچ لائن نہیں سوچ پایا اور انھوں نے وہی دہرایا جو وہ پہلے سے ہی سوچ کر آئے تھے: ‘اے روز بٹوین ٹو تھارنز’ یعنی دو کانٹوں کے درمیان ایک پھول۔’

جناح کا گورنر جنرل کا عہدہ لینے کا فیصلہ

جواہر لعل نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ محمد علی جناح

                                                             جواہر لعل نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ محمد علی جناح

دو جون سنہ 1947، کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے لندن سے تقسیم کے متعلق آنے والے منصوبے کے لیے ‘نارتھ کورٹ’ میں ہندوستانی سیاسی رہنماؤں کی کانفرنس بلائی تھی۔

ماؤنٹ بیٹن نے ان رہنماؤں سے کہا کہ وہ آدھی رات سے پہلے اپنے جوابات انھیں بتا دیں۔ جب جناح وہاں پہنچے تو ماؤنٹ بیٹن نے دیکھا کہ جناح نے کھیل کھیل میں ایک کاغذ پر چند ٹیڑھی میڑھی شکلیں بنائیں۔

کاغذ پر راکٹ، ٹینس ریکیٹ، پرواز کرتے ہوئے غباروں کے ساتھ بڑے حروف میں ‘گورنر جنرل’ بھی لکھا تھا۔ یہ واضح تھا کہ قائد اعظم مستقبل کے عہدے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔

انڈین خفیہ ایجنسی را میں خصوصی سیکرٹری رہنے والے اور پاکستان کے حکمرانوں پر ‘پاکستان ایٹ دی ہلمز’ نامی کتاب لکھنے والے تلک دیویشر بتاتے ہیں: ‘1947 میں پاکستان اور انڈیا کی آزادی سے ایک ماہ پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جناح کو ہندو پاک کے مشترکہ گورنر جنرل کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی تھی۔

‘ان کی یہ دلیل یہ تھی کہ اگر آپ پاکستان کے گورنر جنرل بن جاتے ہیں تو آپ کے اختیار کا دائرہ محدود ہوگا۔ جناح کا جواب تھا، آپ اس کی فکر نہ کیجیے۔ میرا وزیراعظم وہی کرے گا جو میں کہوں گا۔ میں انھیں مشورہ دوں گا اور وہ اس پر عمل کریں گے۔’

تلک دیویشر

اقتدار کی منتقلی کے وقت جناح نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ان کی کرسی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی کرسی سے اوپر رکھی جائے، جسے برطانوی حکومت نے مسترد کر دیا تھا۔ دیویشر بتاتے ہیں: ‘انگریزوں نے انھیں صاف کہہ دیا کہ جناح پاکستان کے گورنر جنرل اسی وقت بنیں گے جب انڈیا کے وائس رائے ماؤنٹ بیٹن انھیں اس عہدے کا حلف دلائیں گے۔ حلف لینے سے پہلے جناح کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔ لہٰذا ماؤنٹ بیٹن کی کرسی سے اوپر ان کی کرسی رکھنا نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی قابل قبول۔’

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور جناح کا بھی یہی خیال تھا انھوں نے ہی پاکستان بنایا ہے۔ ہمایوں مرزا اپنی کتاب ‘فرام پلاسی ٹو پاکستان’ میں لکھتے ہیں: ‘پاکستان کے سابق سیکریٹری دفاع اور بعد میں پاکستان کے صدر بننے والے اسكندر مرزا نے جناح سے کہا تھا کہ ہمیں مسلم لیگ کا خیال رکھنا چاہیے جس نے ہمیں پاکستان دیا ہے۔ جناح نے فوری طور پر جواب دیا: ‘کون کہتا ہے کہ مسلم ليگ نے ہمیں پاکستان دیا؟ میں نے اپنے سٹینوگرافر کی مدد سے پاکستان قائم کیا ہے۔’

جناح اور ماؤنٹ بیٹن

جناح کا دن عام طور پر صبح 8 بجے کراچی میں شروع ہوتا تھا۔ ایک بڑی میز پر جناح کے سامنے کاغذات کا ایک ڈھیر رکھ دیا جاتا تھا۔ اس کے پاس ہی ‘کریون اے’ سگریٹ کا ایک ڈبہ بھی رکھا ہوتا تھا۔ ان کے پاس کیوبا کی بہترین سگریٹ بھی ہوا کرتے تھے جن کی خوشبو سے کمرہ مہکتا رہتا تھا۔ جناح خود کو مسلمانوں کا مذہبی کے بجائے سیاسی رہنما کہتے تھے اور اسی لیے کئی بار انھیں بڑے مذہبی مسائل کا سامنا بھی ہوا۔ مشہور مصنف خالد لطیف گوبا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک بار انھوں نے جناح کو ایک مسجد میں نماز کے لیے مدعو کیا۔ جناح نے کہا، ‘میں نہیں جانتا کہ نماز کیسے پڑھی جاتی ہے۔‘ میں نے جواب دیا: ‘آپ ویسا ہی کریں جو وہاں دوسرے کر رہے ہوں۔’

جناح

11 اگست سنہ 1947 کو، جناح نے پاکستان کے مقننہ میں ایک تقریر کی، اسے سن کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی خواب سے جاگ گئے ہوں۔ یوں محسوس ہوا جیسے ہندو مسلم اتحاد کا وہی پرانا پیغامبر جو سروجنی نائڈو کو بھاتا تھا پھر سے ابھر آیا ہے۔

کسی کاغذ کو دیکھے بغیر وہ بول رہے تھے کہ ‘ہمیں اقلیتوں کو اپنے الفاظ، اعمال اور خیالات کے ساتھ یقین دلانا چاہیے جب تک کہ وہ پاکستان کے وفادار شہری کے طور پر اپنے فرائض کو انجام دیتے رہیں گے انھیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اس دور کا آغاز کر رہے ہیں جب نہ کوئی تفریق ہوگی اور ہی دو برادریوں میں کوئی فرق کیا جائے گا۔ ہماری ابتدا اس بنیادی اصول کے ساتھ ہو رہی ہے کہ ہم ایک ملک کے مساوی شہری ہیں۔’

جناح

بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے قبل جناح ایک مہلک بیماری کی گرفت میں آ چکے تھے۔ ان کے ڈاکٹر جال پٹیل نے ان کا ایکس رے لے لیا تو انھوں نے پایا کہ ان کے پھیپھڑوں پر دھبے آ گئے ہیں۔ لیکن انھوں اس بات کو صیغۂ راز میں رکھا۔

میں نے تلک دیویشر سے پوچھا اگر یہ پتہ ہوتا کہ وہ زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہیں گے تو شاید انڈیا کی تقسیم نہیں ہوتی؟

دیویشر کا جواب تھا: ‘ڈاکٹر پٹیل بہت پیشہ ور ڈاکٹر تھے۔ لہذا انھوں نے کسی کو خبر نہیں ہونے دی۔ میرا خیال ہے کہ ماؤنٹ بیٹن کو اس کا علم تھا۔ انھوں فروری 1948 سے چھ ماہ پہلے آزادی کی تاریخ اگست 1947 میں مقرر کی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جناح زیادہ زندہ نہیں رہیں گے۔ اگر گاندھی، پٹیل اور نہرو کو جناح کی بیماری کا علم ہوتا تو وہ اپنی حکمت عملی تبدیل کرسکتے تھے اور تقسیم کے لیے مزید وقت مانگتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘پاکستان کی تحریک اور پاکستان کے قیام کا دارومدار صرف ایک شخص پر تھا، اور وہ جناح تھے۔ لیاقت علی اور دوسرے مسلم لیگ کے رہنماؤں میں اتنی قابلیت نہیں تھی کہ وہ پاکستان کے مطالبہ کی پیروی کر سکتے تھے۔

جناح

مارچ 1948 تک جناح صحت بہت خراب ہو چکی تھی۔ جب بمبئی کے ان کے دوست جمشید کراچی میں ان سے ملنے گئے تو انھوں نے دیکھا کہ وہ اپنے سرکاری گھر کے باغ میں ایک کرسی پر اونگھ رہے تھے۔ جب ان کی آنکھیں کھلیں تو انھوں نے کہا: ‘جمشید میں بہت تھکا چکا ہوں۔’ جناح کی عمر 72 سال ہو چکی تھی۔ وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقدمہ جیت چکے تھے۔ یہی نہیں زندہ رہنے کے معاملے میں انھوں نے اپنے سب سے بڑے مخالف مہاتما گاندھی کو شکست دی تھی۔ اب تو وہ کم از کم آرام کرسکتے تھے۔ 11 ستمبر سنہ 1948 کی رات دس بج کر 20 منٹ پر قا‏ئد اعظم محمد علی جناح کی روح پرواز کر گئی اور اگلے دن انھیں ایک سادہ سے کفن میں کراچی میں دفن کر دیا گیا۔ تاریخ کے ایک بے حد غیر معمولی اور پراسرار شخص کا جسد خاکی آج بھی اسی جگہ گلابی گنبد والے ایک خوبصورت مقبرے میں موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp