امریکی وفاق اور ریاستی حکومتیں کس طرح کام کرتی ہیں؟


خود مختاری بذات خود لفظ حکومت کی تعریف کا ایک لازم ملزوم جزو ہے۔ اور کوئی بھی ایسی حکومت جو اپنے کارہائے حکومت سرانجام دینے کے لئے خود مختار نہیں ہے وہ باجگزاری کی تعریف میں تو آ سکتی ہے مگر کسی بھی طرح سے لفظ حکومت کی تعریف کے معیار پہ پورا نہیں اترتی۔ یہی وجہ ہے جب بھی کوئی ملک یا قوم کسی معاہدے کا حصہ بنتے ہیں تو اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ متعلقہ حکومت اور قوم کی خودمختاری پر کوئی کدغن نہ آنے پائے۔ کیونکہ ایک خودمختار حکومت ہی لوگوں کی حقیقی نمائندگی کر سکتی ہے۔

دنیا میں اول روز سے ہی حکومت کے حصول کا کھیل کسی نہ کسی صورت جاری و ساری ہے۔ طاقتور حکومتیں کمزور حکومتوں کو اپنا باجگزار اور کارندہ بنا کر ان کی حقیقی طاقت سلب کرنے اور اس کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کے لئے مختلف حربے آزماتی رہی ہیں۔

کبھی کھلم کھلا طاقت اور چڑھائی سے تو کبھی نو آبادیاتی نظام سے، کبھی اپنے کٹھ پتلیوں کو تخت پر بٹھا کر۔ کبھی وحدانی نظام قائم کر کے تو کبھی نام نہاد وفاق قائم کر کے۔ مقصد سب کا ایک ہی رہا ہے کہ کسی بھی طرح ان علاقوں کے وسائل، طاقت اور اختیارات کو اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کیا جائے۔ اور اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہیں۔
سابقہ سوویت یونین، برطانیہ اور اس کا نو آبادیاتی نظام، مغل سلطنت پاک و ہند، عہد سلاطین، سلطنت روم اور ایسی بہت سی گزشتہ اور حالیہ مثالیں ہم دیکھ سکتے ہیں۔

مگر جلد یا بدیر طاقت کے سب سرچشمے حقیقی اور خود مختار نمائندوں کے پاس لوٹ گئے۔ کیونکہ یہ آئین فطرت ہے کہ دنیا کی ہر شئے کو جلد یا بدیر اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہے۔ لہذا کائنات کے ایک ذرے کو بھی ہم زیادہ دیر اس کی اصل سے دور نہیں رکھ سکتے۔ اسی طرح انسان کو بھی اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے۔ اور ایک آزاد اور حقیقی عوامی نمائندہ حکومت کا کانسیپٹ بھی اسلام اتنی ہی شدت سے پیش کرتا ہے۔

پہیے سے ریل گاڑی، پھر جہاز اور خلا تک کے سفر نے جہاں انسانی سوچ کو نئے نئے عالم کھوجنے اور ان پر اپنی حکمرانی قائم کرنے کی دوڑ میں لا کھڑا کیا وہیں روئے زمین پر انسانی شعور کی بڑھتی ہوئی اڑان اور پختگی کو دیکھتے ہوئےانداز حکمرانی بھی تبدیل ہو گئے۔

اب انسانی کی فطری آزاد طبییت کو ننگی پنگی جارحیت اور آمریت سے دبانا انسان نہیں رہا۔ اس لیے جدید حکومتی نظاموں کو عوامی نمائندگی اور عوامی خواہشات کا آئینہ دار بنانے کے لئے جمہوری نظام کے نظریے کو بہت تقویت ملی۔ اور اس سلسلے میں دو نظام زیادہ تر رائج ہوئے۔ ایک وحدانی نظام حکومت اور دوسرا وفاقی۔

اول الذکر میں تمام اختیارات مرکز کے پاس ہوتے ہیں جبکہ مؤخر الذکر میں اختیارات صوبائی اکائیوں اور وفاق میں منقسم ہوتے ہیں۔ ایسے نظام میں ہوتا یہ ہے کہ مختلف نظاموں، رنگوں، نسلوں، ثقافتوں، اور تہذیبوں پر مشتمل جغرافیائی اکائیاں اور جغرافیائی ہمسائے اپنے مشترکہ اور وسیع تر مفادات کے بہتر حصول اور فلاحی ریاست کے قیام کے لئے آپس میں ایک معاہدے کے تحت ایک وفاق بنا لیتے ہیں۔ اور اپنی مثبت اصل پر قائم رہتے ہوئے چیدہ چیدہ اختیارات جیسے کہ دفاع، خارجہ، کرنسی اور ابلاغ وغیرہ وفاق کو دے دیے جاتے ہیں اور باقی تمام اختیارات و وسائل بدستور صوبوں یا ریاستوں کے پاس رہنے دیے جاتے ہیں۔

گزشتہ صدی میں جہاں فیڈرل ازم یا وفاقیت کے کامیاب ترین تجربے سویٹزرلینڈ اور امریکہ جیسے ملکوں میں ایسے حکومتی اور ریاستی اتحاد قائم کر کے کیے جا چکے ہیں۔ وہیں سوویت ریاستوں کے اتحاد کا بدترین انجام بھی موجود ہے۔ وجہ یقیناً وفاق کی غلط پالیسیز اور اختیارات کی حد سے زیادہ تجاوزات تھیں۔

جبکہ متحدہ ریاست ہائے امریکہ کی کامیابی کی وجہ اختیارات کی (وفاق کے قیام کے لئے گئے معاہدے کے عین مطابق یا قریب قریب) تقسیم پر قائم رہنا ہے۔
امریکہ میں اس وقت بنیادی طور پر تین طرح کی حکومتیں ہیں۔ وفاقی، ریاستی اور مزید بلدیاتی یا مقامی۔

وفاقی اور ریاستی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا بنیادی نقطہ آئین کی دسویں ترمیم ہے جس کے مطابق سوائے ان اختیارات کے جن کو آئین میں باقاعدہ بتایا گیا ہے باقی سارے اختیارات ریاستوں کے پاس ہوں گے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو دفاع، خارجہ، کرنسی اور ابلاغ کے علاوہ تمام اختیارات ریاستی حکومتوں کے پاس ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام کار پارکنگ، ٹریفک اور مواصلاتی نظام سے لے کر جائیداد، صحت، تعلیم، پانی، بجلی، خوراک، چھت، روزگار اور ٹیکسیشن تک کے روزمرہ چھوٹے سے چھوٹے معاملے کے لئے بھی لوگوں کا واسطہ ریاست سے پڑتا ہے نہ کہ وفاق سے۔ لہذا ہمارے لئے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ وفاق ریاست نہیں ہوتا ریاستوں کا اتحاد ہوتا ہے اور اصل چیز ریاست یا صوبے ہیں۔ وفاق اور ریاست کو ایک سمجھنا سرا سر غلط فہمی ہے۔

اگرچہ متحدہ آئین امریکہ کا سب سے بڑا قانون ہے مگر ہر ریاست کا ایک اپنا آئین بھی ہے اور بہت سی ریاستوں کے آئین متحدہ ریاستی امریکی آئین سے کہیں زیادہ مفصل اور طویل ہیں۔ اور اس حوالے سے ان کے اپنے قانون، اصول، ضوابط اور پالیسیز اور نظام ہیں۔

وفاقی حکومت کی طرح تمام ریاستوں کی حکومتیں بھی تین ستونوں یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ پر استوار ہیں۔ جن میں اختیارات کی تقسیم اور چیک اینڈ بیلنس کے نظریے کو بہت سختی سے مد نظر رکھ گیا ہے۔ تمام ریاستوں کی مقننہ یا کانگرس سوائے نبراسکا کے دو ایوانوں سینٹ اور ایوان نمائندگان پر مشتمل ہے۔ جن کا کام بجٹ، ٹیکسیشن، احتساب اور قانون سازی وغیرہ ہے۔

ججز کا تقرر ہر ریاست کے اپنے آئین کے مطابق ہوتا ہے۔ ہر ریاست کی اپنی سپریم کورٹ ہے جو ذیلی عدالتوں کی نگرانی کرتی ہے اور ان سے آنے والی اپیلیں سنتی ہے۔ ذیلی عدالتوں کے فیصلوں کی درستگی یہاں ہوتی ہے سوائے وہ جن کا تعلق امریکی آئین سے ہو جس کے لئے وفاق میں سپریم کورٹ موجود ہے۔

رہاستوں کی انتظامی برانچ گورنر اور اس کی کابینہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ کمشنرز، سیکرٹریز، غرض زیادہ تر عہدے داران براہ راست منتخب ہوتے ہیں۔ مگر بات صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوتی ریاستوں نے اپنے پاس موجود اختیارات اور ذمہ داریوں کو اپنے پاس رکھنے کے بجائے ان کو مزید تقسیم کر دیا۔ اور اس ضمن میں مقامی حکومتوں کا ایک مضبوط جال ہر ریاست میں موجود ہے۔ جو کہ خالصتاً ریاستی معاملہ ہے اور ہر ریاست اس کو اپنے آئین و قانون کے مطابق چلا رہی ہے۔

عام طور پر امریکی ریاستوں میں مقامی حکومتوں کی تقسیم کاونٹیز یا میونسپلٹیز اور ان میں ٹاؤنشپ، سٹی، ٹاؤن اور ولج کی صورت میں ہے۔ ہر اکائی کی حکومت کا اپنا منتخب مئیر یا لیڈر اور اس کی کابینہ یا کونسل ہے۔ جو ہر لحاظ سے با اختیار ہیں۔ ان کے پاس عام کا ر پارکنگ فیس سے لے کر ٹریفک کے قوانین ضوابط، پراپرٹی ٹیکس، بجلی، پانی، خوراک، صحت، دیگر روزمرہ ضروریات غرض پورا ایک ریونیو سسٹم موجود ہے۔ یہاں کی عدلیہ، پولیس، اور دیگر محکمے مکمل طور پر مقامی حکومت کے ماتحت ہیں۔ قانون سازی کے مکمل اختیارات بھی ان کو دیے گئے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ یہاں ہر سطح پر ایک مکمل آزاد اور خود مختار اور با اختیار حکومتی نظام ہے جو ہر لحاظ سے عام لوگوں کی متعلقہ ضروریات پوری کرنے اور اپنے علاقائی معاملات سے بہتر طور پر نبرد آزما ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ اور ریاستی حکومتیں ان پر کوئی دباؤ یا بے جا مداخلت نہیں کرتیں۔

میں نے یہاں مقامی حکومتوں کو اپنی بجلی تک پیدا کرتے بھی دیکھا ہے۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ چونکہ مقامی حکومت سے عام لوگوں کا زیادہ اور قریب ترین واسطہ ہے لہذا اختیارات کی تقسیم نیچے سے اوپر کی طرف ہے۔ ان کے اپنے احتسابی نظام ہیں۔ ان کا اپنا خزانہ اور اپنا بجٹ ہے۔ ان کو بات بات پر ریاستی حکومت سے اجازت طلب نہیں کرنا پڑتی اور نہ ہی یہ ریاستی حکومتوں کے کارندے یا نمائندے ہیں۔

یہ لوگوں کے ووٹ سے آتے ہیں اور لوگوں کو جواب دہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں رضاکارانہ طور پر لوگوں نے کونسلز بنا رکھی ہیں جن کی ممبر شپ عام شہریوں سے لے کر منتخب نمائندوں نے بھی لے رکھی ہے جو حکومت کی معاونت بھی کرتے ہیں۔ تجاویز بھی دیتے ہیں اور سوال بھی اٹھاتے ہیں۔ یہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا کانسیپٹ بہت مضبوط ہے۔ اس طرح سے یہاں عوامی شمولیت، شفافیت، جواب دہی، ملکیت اور رضاکاری کا نظریہ بھی بہت مضبوط ہو گیا ہے۔

چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکی وفاق میں اختیار کی مکمل اور منصفانہ تقسیم ہے۔ جس کی بنیاد شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کی وہ مضبوط اینٹ ہے جو وفاق قائم کرتے ہوئے ان کے بزرگوں نے رکھی تھی اور جو آج تک نہ صرف قائم ہے بلکہ انھوں نے اس میں بگاڑ پیدا کرنے کے بجائے اس کو مزید سنوارا ہے۔

یہاں وفاقی حکومت میں اختیارات کی بھوک نہیں ہے اور نہ وہ ریاستوں کے معاملات اپنے ہاتھ میں لیتی ہے۔ یہی حال ریاستوں کا مقامی حکومتوں کے لے کر ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ ہم تمام کام اور تمام ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتے۔ اور نہ ایسا ممکن ہے لہذا ضروری ہے کہ کام اور اختیارات متعلقہ لوگوں میں بانٹ دیے جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زیلی حکومتوں کو ریاست اور ریاستوں کو وفاق سے شکائتیں نہیں ہیں اور نہ ریاستوں کو ایک دوسرے سے شکائتیں ہیں کہ کوئی ان کا حق کھا گیا۔ ہر کوئی اپنے وسائل کو خود دیکھ اور سنبھال رہا ہے۔ اور اپنا ایک نظام رکھتا ہے جس کا وفاق سے کوئی تعلق نہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2