قصہ لندن جانے اور فیض میلے میں ہنگامے کا


اس دوران ضیاءالدین یوسف زئی بھی لوٹ کر ہال کی پہلی قطار میں اپنی نشست پر بیٹھنے کو تھے کہ انہیں ہم نے بتایا کہ آپ اوپر بلائے جا چکے ہیں۔ رضا ربانی تو ویسے بھی سیانے ہیں چنانچہ وہ جلیلہ سے ایک نشست دور ہو کر بیٹھ گئے تھے یوں ضیاءالدین نے جا کر اپنی نشست سنبھال لی۔ خالد حمید فاروقی خفیف تو تھے ہی کچھ خجل سے ہو کر چوتھی نشست پر بیٹھ گئے اور پہلی نشست پر نشستہ جلیلہ حیدر کو پہلے بولنے کو کہا۔ وہ ریاست کے ایک حصے کی بے جا زیادتیوں اور عمومی سرکاری سختیوں کا بڑے اچھے انداز سے ذکر کر رہی تھیں کہ مجھ سے ایک قطار چھوڑ کر چوتھی قطار میں بیٹھے فرنچ کٹ داڑھی والے شخص نے بلند آواز سے کہا کہ فیض سے متعلق بات کیجیے۔ یہ ذات شریف اس سے پہلے بھی دخل در معقولات کرتے چلے آ رہے تھے چنانچہ بہت سے لوگوں نے بیک وقت انہیں خاموش ہونے کو کہا مگر جلیلہ گڑبڑا گئیں اور انہوں نے اپنی بات تقریباً مکمل نہ کیے بغیر جلد تمام کر دی۔

اب باری تھی ضیاءالدین یوسف زئی کی جو مقالہ لکھ کر لائے تھے مگر انہوں نے بیٹھے بیٹھے مقالہ اس انداز سے پیش کیا جیسے وہ فی البدیہہ بول رہے ہوں۔ ساتھ ہی وہ فیض کے اشعار کو اتنی مہارت اور آزادانہ انداز میں اپنی دل پذیر باتوں کے ساتھ باندھ رہے تھے کہ کسی کو ان کی کبھی کبھار کی لکنت بالکل نہ کھٹکی اور سبھی ہمہ تن گوش ہوئے سنتے رہے۔ میرا کھڑے ہو کر تالیاں پیٹ کے انہیں داد دینے کو جی چاہا مگر میں ایسا کرنے کی عمر کا ہوں نہیں اور ساتھ ہی تھا بھی ایک طرح سے اپنے طور پر پہنچا ہوا مہمان چنانچہ ایسا نہ کیا۔ تاہم سیشن ختم ہونے کے بعد میں نے سٹیج پر چڑھ کر ان کو سراہا بھی اور اپنا پیار ملالہ کو پہنچانے کی درخواست بھی کی جس پر انہوں نے صاد کیا۔

لیجیے صاحب اہم ترین مہمان اور مدارالمہام کے بقول ان کے یونیورسٹی کے ساتھی سینیٹر رضا ربانی کو بولنا تھا جنہوں نے روسٹرم پر جا کر کھڑے ہو کر گفتگو کرنے کی اجازت چاہی جس سے ظاہر ہے بھلا کیا انکار ہو سکتا تھا۔ انہوں نے اردو اور انگریزی دونوں ہی زبانوں میں وہی باتیں کیں جو وہ کرتے رہتے ہیں۔ اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو مطعون کر رہے تھے جن دونوں کا وہ خود بھی حصہ ہیں۔ کیا کیا جائے وہ تو آنکھیں بھر آنے کے بعد بھی فوجی عدالتیں بنائے جانے کے حق میں ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ سیاستدانوں کو خود کو بحیثیت سیاستدان برقرار رکھنے کی خاطر بہت سی مصلحتوں سے گزرنا ہوتا ہے اگرچہ سربراری کے لیے انتہائی اختلافی معاملے پر مستعفی ہو جانا کہیں زیادہ افضل اور باتوقیر عمل ثابت ہو سکتا ہے۔ خیر چھوڑیے، رضا ربانی صاحب ہمارے لیے قابل تعظیم سیاستدان ہیں۔

ہاں ان سے اپنی تقریر میں ایک سہو ہو گیا جب وہ خود کو بنیاد پرستوں کے طیش سے محفوظ رکھنے کی خاطر اپنے مسلمان ہونے کے دعوے کا اعادہ کر رہے تھے تو کہہ بیٹھے کہ ہم سب مسلمان ہیں۔ اس پر پیچھے سے کئی آوازیں آئیں کہ سب مسلمان نہیں ہیں۔ اس پر بھی کچھ بدمزگی ہوئی۔ ایک اور کسی وقت جب کسی ایک اہم مقرر نے فوج سے متعلق بات کی تو پیچھے سے ” اس کے پیچھے وردی ہے“ کا نعرہ بھی لگا۔ میں یہی سمجھا کہ پشتین کے کوئی حامی ہیں۔ کچھ تو تو میں میں بھی ہوئی مگر پھر خامشی چھا گئی۔

اس سیشن کے بعد موسیقی کا سیشن تھا۔ شکیل اعوان نام کے شلوار قمیض میں ملبوس گلوکار نے فیض صاحب کی چند پنجابی نظموں میں ایک گائی مگر ہال کی پچھلی نشستوں سے بار بار ” کالا چولا پا ساڈی فرمائش تے“ کا تقاضا ہوتا رہا جو بہر طور گلوکار نے پورا کر دیا۔ منتظمین چاہے سچ کہنے کا برا مانیں مگر یہ گیت بھی فیض سے منسوب میلے پر دھبہ رہا اور نظم و ضبط سے گریز۔ گلوکار کے لیے گائے جانے والی شاعری مختص کی جا سکتی تھی۔

ایک ہندوستانی خاتون نے اچھا کتھک رقص کیا مگر بہت دیر تک پاوں کی تال دیتی رہی۔ دھمک سے اس کے گال تھر تھرا رہے تھے اور میں ڈر رہا تھا کہ گھنگرو ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ وہ خود نہ بے سدھ ہو کر گر پڑے مگر شاباش نہ صرف خوب ناچی بلکہ کئی بار مائیک پر آ کر رقاص کو شاعر سے مشابہ کرتی رہی کہ شاعر کی شعر گوئی پر چپ سادھے رکھنی چاہیے حالانکہ لوگ مشاعرے میں شاعر کو اتھل پتھل کرکے رکھ دیتے ہیں۔

غزلوں کے لیے جازم مشرا تھے، جنہوں نے لندن پہنچنے پر اپنی گائی ہوئی غزل کا ایک ٹکڑا منتظمین کو فیس بک پر لگانے کو دیا تھا جس میں وہ ” نوبہار“ کو انگریزی انکار کے لفظ ” نو“ کے لہجے میں ادا کر رہا تھا۔ جازم مجھے پروگرام سے پہلے ہی ہال کے باہر مل گیا اور میں نے اس کی تصحیح کر دی جو اس نے نہ صرف سعادت مندی سے قبول کی بلکہ میرے سامنے دو بار درست لہجے میں لفظ ادا بھی کیا۔ جب سٹیج پر گانا شروع کیا تو وہ خوب گا رہا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4