قصہ لندن جانے اور فیض میلے میں ہنگامے کا


البتہ میرے کان گرم ہونا شروع ہو گئے تھے۔ سفر کی تھکن اور رات بھر کی بے آرامی رنگ دکھا رہی تھی۔ مجھے بہت زیادہ پسینہ آ رہا تھا چنانچہ میں محفل تمام ہونے سے پہلے ہی نکل گیا۔ گھر پہنچ کر بھی پسینہ آ رہا تھا۔ میں خائف تھا کہ خدانخواستہ کہیں دل کا دورہ تو نہیں پڑ رہا۔ میں نے سوچا نہا لوں تاکہ معاملہ ادھر ہو یا ادھر۔ میں ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی اپنے ساتھ ایسے ایسے غلط اعمال کرتا رہتا ہوں۔ رات گئے تو فشار خون بلند ہوا ہی اور اگلے روز بہت زیادہ البتہ نہا کر میں عارضی طور پر پر سکون ہو گیا تھا۔ ندیم سعید جو گذشتہ برس لندن میں فیض فیسٹیول کا کرتا دھرتا تھا اور

اس بار بھی میرا میزبان مجھے پرسکون دیکھ کر بولا، “ آپ تو فیض میلے میں ہنگامہ کروا آئے؟ “ میں نے کہا کہ کوئی ہنگامہ نہیں ہوا تو اس نے سوشل میڈیا پر چلی ہنگامے کی وڈیو سامنے کر دی۔ ۔ندیم سعید گذشتہ برس کے میلے کے بعد موجودہ منتظمین کے رویوں سے اکتا کر اس تسلسل سے باہر ہو گیا تھا اور باقاعدہ لاتعلق بھی، ویسے بھی اس کا موقف ہے کہ ایک پروڈکٹ کو تنوع پیدا کیے بغیر بار بار نہیں بیچا جا سکتا اس لیے اس تنظیم سے تعلق ہی توڑ لیا۔ معلوم ہوا کہ ہنگامہ کرنے والا ایک ایسا بلاگر تھا جسے اغوا کرکے چھوڑ دیا گیا تھا اور فیض میلہ میں اس کے ساتھ ایک معروف مصنفہ بھی آئی تھیں جنہوں نے فوج سے متعلق ایک متنازعہ کتاب لکھی تھی۔

سب سے بڑھ کر بات یہ ہوئی کہ موصوف میلے میں آنے سے پہلے ” اتفاق“ سے ہلٹن لندن میں ڈی جی آئی ایس پی آر سے ملے، تصویر بنائی اور خود میڈیا پر لگائی بھی۔ بعد میں قصہ یہ ہوا کہ اس میلے کو جنرل آصف غفور کے آنے سے جوڑا جا رہا ہے کیونکہ میلے کے منتظمین اور مقررین اسی ہوٹل میں مقیم رضا ربانی کو ملنے گئے تو ” اتفاقا ”بیشتر کی ملاقات جنرل صاحب سے ہو گئی اور اکثر نے ان کے ساتھ تصویر بھی بنوائی، سنا ہے۔ اب سوشل میڈیا پر لوگ اس قصے کو لے اڑے ہیں بہر حال میری ان سے ملاقات نہ ہو سکی کیونکہ اپنے ساتھ اتفاقات ہوتے ہی نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4