مہارانی چرکھاری پر برے ستاروں کے اثرات


بعض بچوں کی پیدائش ایسے برے ستاروں کے زیر اثر ہوتی ہے، کہ وہ زندگی بھر مصائب و مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ ا ن بے چار وں کو سکھ اور آرام کا ایک دن بھی نصیب نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں میں سے ہی مرحوم مہاراجہ چرکھاری کی پہلی بیو ی تھیں۔

مہاراجہ چرکھاری کی یہ بیوی مہاراجہ با نسواڑہ کی بیٹی تھیں۔ ابھی بچپن کا زمانہ تھا، کہ ان کی والدہ نے انتقال کیا، اور یہ سوتیلی والدہ کے رحم پر رہنے کے لئے مجبور ہوئیں۔ سوتیلی والدہ کا سلوک ایسا تھا، جیسا سوتیلی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ بے چاری اپنی سوتیلی والدہ کے مظالم برداشت کرتیں، اور زبان سے کچھ نہ کہہ سکتیں، کیونکہ باپ اپنی نئی بیوی پر فدا تھے۔ اس لڑکی نے بانسواڑہ کے محلات میں اچھی تعلیم حاصل کی، اور اس نے ہندی زبان میں اشعار کہنے بھی شروع کر دیے، کیونکہ ان کو لٹریچر کا شوق تھا۔

اس لڑکی کی عمر اٹھارہ برس کی تھی، کہ 1968ء میں ان کی شادی مہاراجہ چرکھاری سے ہوگئی، اور یہ بطور مہارانی کے چرکھاری چلی گئیں۔ چرکھاری پہنچنے کے بعد انہوں نے دیکھا، کہ ا ن کے شاہر دہلی کی ایک پہاڑن طوائف لالی کے زیر اثر ہیں، اور یہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ بیوی بہت خوبصورت، بہت لائق اور بہت ہی شریف تھیں۔ مہارانی نے بہت کوشش کی، کہ مہاراجہ یعنی ان کے شوہر لالی کے چنگل سے آزاد ہوں، اور یہ اپنی بیوی سے محبت کریں، مگر ان کو کامیابی نصیب نہ ہوئی۔

1930ء کا واقعہ ہے، مہارانی چرکھاری کو اپنے کسی ملازم سے علم ہوا، کہ اخبار ”ریاست“ مہارانیوں اور بیگمات پرکیے جا رہے مظالم کو بے نقاب کرتا ہے، اور اس کے کئی مضامین کئی ریاستوں کی اصلاح کر چکے ہیں۔ اس بے چاری نے اپنے حالات کے متعلق ہندی زبان میں (اس خاتون کو یہ علم ہی نہ تھا کہ ”ریاست“ اردو میں شائع ہوتا ہے۔ کیونکہ سینٹرل انڈیا کے ہندو اردو نہ جانتے تھے۔ رواج صرف ہندی کا تھا) ایک دردناک نظم لکھی، اور شائع کرنے کے لئے ایک عورت کے ذریعہ دفتر ” ریاست“ کو بھجوائی۔ جس کا ترجمہ ” ریاست“ میں شائع کیا گیا۔ اس نظم کا ترجمہ یہ تھا :۔

”میں خدا سے شکایت کرنے کا حق رکھتی ہوں، کہ بچپن میں سوتیلی ماں سے واسطہ پڑا، جو ناقابل برداشت تھا۔ میں نے اس زمانہ میں سوتیلی والدہ کی سختیاں صبر کے ساتھ اس خیال سے برداشت کیں، کہ جب بڑی ہوں گی اور میری شادی ہو جائے گی، تو مجھے شوہر کی محبت نصیب ہو گی، اور یہ برے دن ایک خواب ہو جائیں گے۔ مگر قسمت کے کھیل کہ شادی کے بعد اب میرے شوہر کو میرے جذبات کا احساس نہیں۔ میں اس کی محبت سے محروم ہوں۔ اے خدا کیا تم نے مجھے اسی لئے پیدا کیا تھا، کہ میں تمام زندگی ہی مصائب و مشکلات برداشت کرتی رہوں، اور مجھے سکھ آرام کا ایک دن نصیب نہ ہو“۔

معصوم و بے گناہ مہارانی چرکھاری ابھی اپنے شوہر یعنی مہاراجہ چرکھاری کی بے اعتنائی کا شکار تھی، اور خدا سے شکوہ کر رہی تھی، کہ مہاراجہ نے ایک نئی شادی کا سلسلہ جاری کر دیا۔ اس نئی شادی کے لئے بات چیت نیپال کے وزیر اعظم کے خاندان میں ہوئی۔ نیپال کے وزیراعظم اس زمانہ میں عملی طور پر نیپال کے حکمران تھے۔ مہاراجہ نیپال ایک ڈمی صورت میں ہوا کرتے، جو وزیراعظم کی اجازت کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا بھی نہ جا سکتے، کیونکہ وزیراعظم کی پشت پر برٹش گورنمنٹ تھی، اور وزیر اعظم برٹش گورنمنٹ کی افواج کے لئے گورکھے رنگروٹ دیتے۔

اس زمانہ اس سے پہلے اور اس کے بعد وزیراعظم نیپال کے خاندان کی اکثر لڑکیاں ہندوستان کے والیان ریاست کے لڑکوں کے ساتھ بیاہی جاتیں، کیونکہ ان کے لئے نیپال میں مناسب اور مالدار نہ مل سکتے۔ ان لڑکیوں کو جہیز میں دس دس بارہ بارہ لاکھ روپیہ دیا جاتا۔ چھوٹے درجے کے ہندوستانی والیان ریاست روپیہ کے لالچ میں نیپال کی ارنا یعنی وزیرا عظم فیملی میں شادیاں کر لیتے۔ حالا نکہ ان لڑکوں کا رنگ گو گورا اور نکھرا ہوتا، مگر ناک نقشہ کے اعبتار سے ہندوستانی نقطہ نگاہ سے یہ کوئی زیادہ خوبصورت نہ ہوتیں، کیونکہ ان کے چہرے جاپانیوں اور چینیوں کی طرح کچھ چپٹے سے ہوتے۔

مہاراجہ چرکھاری نے بھی نیپال میں شادی کرنے کا ارادہ صرف روپیہ کے لالچ سے کیا۔ کیونکہ مہاراجہ اپنی عیاشیوں کے مقروض ہو چکے تھے، اور ملازموں کو تنخواہیں بھی وقت پر نہ ملتی تھیں۔ چنانچہ مہاراجہ کی نیپال میں شادی ہوئی۔ اس شادی میں مہاراجہ کو زیور اور جواہرات کے علاوہ دس لاکھ روپیہ نقد جہیز ملا۔ اور ایک شرط بھی تھی، کہ مہاراجہ چرکھاری اپنی ریاست کا دیوان انا صاحب (یعنی وزیراعظم نیپال) کی مرضی سے مقرر کریں، تاکہ یہ دیوان مہاراجہ پر کنٹرول کر سکے۔

مہاراجہ چرکھاری کی شادی نیپال میں ہو گئی، اور نئی نویلی دلہن چرکھاری آگئیں۔ مگر مہاراجہ کے حالات تبدیل نہ ہوئے۔ جو نیپال سے ملا، وہ چند روز میں ہی عیاشی پر صرف ہو گیا۔ نیپال والی رانی کے ساتھ وہی سلوک ہوا، جو بانسواڑہ والی مہارانی کے ساتھ ہو رہا تھا۔ یعنی مہاراجہ اس رانی میں دلچسپی نہ لیتے۔ کئی کئی ماہ، تک ایک دوسرے کا سامنا نہ ہوتا۔ گورنمنٹ کے حکم سے لالی طوائف کا ریاست چرکھاری میں داخلہ بند کر دیا کیا، تو مہاراجہ نے لالی کی ایک رشتہ دار لڑکی جوگلی پہاڑی کو اپنے پاس رکھ لیا، اور جب جوگلی کے متعلق پولٹیکل ڈیپارٹمنٹ نے اعتراضات کیے، تو مہاراجہ نے ایک اور طوائف کو اپنے محلات میں ڈال لیا، جس کے بطن سے ایک لڑکا بھی پیدا ہوا۔ مگر چونکہ یہ لڑکا شادی شدہ سے نہ تھا، اس بے چار ے کی پوزیشن ایک داشتہ زادہ سے زیادہ نہ تھی۔ حالانکہ مہاراجہ نے کوشش کی، کہ اس کو چرکھاری کا ولی عہد قرار دیا جائے۔

مہاراجہ چرکھاری طوائفوں کے چکر میں ہی تھے، کہ آپ بعض جنسی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ پہلے تو بانسواڑہ والی مہارانی والی مہارانی ہی اپنی قسمت کو رو رہی تھیں، اس کے بعد نیپال والی مہارانی بھی بدنصیبیوں کا شکار ہوئی۔ ان دونوں کے بطن سے کوئی اولاد نہ تھی۔ مہاراجہ کی بیماریوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اور ان بیماریوں میں ہی مہاراجہ کا انتقال ہو گیا۔

چند برس ہوئے مجھے معلوم ہوا تھا، ان دونوں مہارانیوں کو الاؤنس ملتا ہے، اور یہ موت کے انتظار میں اپنی زندگی کے دن گزار رہی ہیں۔ حضرت مسیح نے انجیل میں لکھا ہے، کہ انسان کی زندگی کو خوشگوار رکھنے کے لئے تین باتیں ضروری ہیں:۔

1۔ انسان کو مصروفیت ہو۔
2۔ انسا ن کے لئے محبت کا کوئی مرکز ہو۔
3۔ انسان کو آئند ہ کے لئے کوئی امید یا توقع ہو۔

ان تینوں باتون میں سے چرکھاری کی دونوں مہارانیوں کو ایک بات بھی نصیب نہیں۔ والیان ریاست اور ان کی مہارنیوں اور بیگمات کو سوائے کھانے پینے اور بار بار لباس بدلنے کے کوئی دوسرا کام نہیں ہو ا کرتا۔ یعنی یہ دونوں مہارانیاں بھی، مصروفیت سے قطعی محروم ہیں۔ شوہر یا اولاد نہ ہونے کے باعث ان کی محبت کا کوئی مرکز نہیں۔ اور آئندہ کے لئے توقعات کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔ کیونکہ اگر ان کے ہاں اولاد ہوتی، تو یہ توقع کر سکتی تھیں، کہ ان کے بچے بڑے ہو کر ان کے لئے آرام و راحت اور دلچسپیوں کا باعث ہوں گے۔ مگر ستاروں کے برے اثرات سے کون بچائے، جب کہ قسمت میں ہی تباہی لکھی ہو۔

افسوس کہ بانسواڑہ والی مہارانی چرکھاری کا نہ ماصی خوشگوار تھا، نہ حال خوشگوار ہے اور نہ مستقبل خوشگوار ہو گا۔ یہ بے چاری معصوم اور بے گناہ اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔ اور اس کی بدنصیبیوں کا ساتھ دینے کے لئے نیپال والی رانی بھی شامل ہو گئیں۔ کاش کہ یہ دونوں مہاراجہ چرکھاری سے نہ بیاہی جاتیں، اور اگر یہ عام لوگوں کی بیویاں ہوتیں، تو ان کی زندگی یقیناً موجودہ کے مقابلہ پر زیادہ خوشگوار ہوتی۔

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon