چند مفید مشورے


ہمارے وزیر اعظم کو تو خوب پتہ ہے کہ 10ڈاوئننگ اسٹریٹ پر برطانیہ کے وزیر اعظم کا گھر ہے، کوئی آئے کوئی جائے، وہ کوئی بھی وزیر اعظم ہو، یہ جگہ وہ ہے جہاں امن کے نام پر معاہدے ہوتے ہیں، استقبالئے بھی دیئے جاتے ہیں، کوئی بھی سیاسی جماعت آئے، یہ کوئی نہیں کہتا، یہ بیچ دو، یہ عیاشی کی جگہ ہے، پی ایم، ہائوس عزت کی جگہ ہوتی ہے۔ افتخار کی جگہ ہوتی ہے۔

تمام ملکوں کے سربراہوں سے لیکر وفود تک سے آپ یہیں ملاقات کرتے ہیں، پھر دیکھئے وائٹ ہائوس،امریکی صدر کا دفتر ہے۔ اس کا ایک پورشن ایسا ہے جو عوام کے لئے کھولا جاتا ہے، کوئی صدر یہ نہیں کہتا چاہے وہ ٹرمپ ہی کیوں نہ ہو کہ میں یہاں نہیں رہوں گا،یہ سچ ہے کہ آپ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہیں قرضوں کے بوجھ نے ہراساں کیا ہوا ہے۔

جس کا برملا اعلان بھی آپ نےکیا ہوا ہے۔ کفایت کے اقدامات بھی اٹھائے ہیں،وہ بھی قابل تعریف ہیں، مگر محترم اور قابل عزت مقامات جیسے گورنر ہائوس ہے یہ جگہیں فروخت نہیں کی جاتیں، البتہ یہ جو مری یا ایبٹ آباد وغیرہ میں ریسٹ ہائوسز بنے ہوئے ہیں ان کو بے شک اعلیٰ ہوٹلوں میں بدل دیں، آپ کے پاس جو میوزیم ہیں، انکو بہتر کرنے کے اقدامات اور لوگوں کی دلچسپی کا سامان کریں۔

اسلام آباد میں لوک ورثہ ثقافتی میوزیم میں جب میں ہر روز اسکولوں ،کالجوں کے طالبعلموںکی بسیں آتی دیکھتی ہوں تو فوزیہ اور عکسی مفتی کیلئے دعائیں نکلتی ہیں، جب میں (پی ۔ این ۔سی اے) کی بلڈنگ دیکھتی ہوں تو اسکے ڈیزائن کرنے والے پاشا کے لئے محبت اور بڑھ جاتی ہے۔

مگر اندر جا کر یہ پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 20برس سے نئی پینٹنگز نہیں خریدی گئیں، سات گیلریاں انتظار کر رہی ہیں کہ انکی دیواریں آراستہ ہوں، پاکستان کی ساری لائبریریاں ،فنڈز نہ ہونے سے خالی الماریاں لئے بیٹھی ہیں،عزیز وزیر اعظم ،اپنے ملک کے کونوں میں بیٹھے ہوئے دہشت گردوں کے سہولتکاروں کو کسی طرح نکال دیں، تو ہمارے ملک میں سیاحت فروغ پائے۔

’’نیلم ویلی ‘‘اتنی خوبصورت ہے۔ مگر 10سال پہلے جو زلزلہ آیا تھا، اسکی سڑکیں ویسی ہی ٹوٹی پھوٹی ہیں بالکل ناقابل استعمال ہیں، مالم جبہ دنیا بھر میں اسکیننگ کے لئے مشہور ہے۔ مگر مدین سے مالم جبہ تک سڑک کیا کھنڈر ہیں، ہمارے ملک میں اتنے تاریخی قلعے ہیں، جن کی طرف کوئی محکمہ توجہ نہیں کرتا۔

روز مسجد وزیر خان میں نقاشی ہوتی ہے، لوگوں کے ہاتھ میں گاڑی اور موٹر سائیکل کی چابی ہوتی ہے۔ وہ اس سے اپنا نام کھود جاتے ہیں۔ ہندوستان میں کوئی ایسا مقام ہے کہ جہاں صرف ایک پرانا مندر ہے اور سمندر ہے، پورے سال ہر روز بھر بھر کے جہاز آتے ہیں، لوگ سمندر کے کنارے آرام کرتے ہیں۔

مجھے خبر ہے کہ عزیز وزیر اعظم تم سڑک پر ملک کے لئے بھیک مانگنے بھی نکل سکتے ہو اور تم ملک کی تقدیر بدل سکتے ہو، پورے پاکستان میں آرٹ ،موسیقی ، ڈرامے اور سیاحت کے لئے جو ادارے ہیں، وہاں کام کرنے والے لوگ ڈھونڈ کر لگائیں، اتنی ساری باہر کی پڑھی لکھی بچیاں اور بچے، ان سے مشورہ کریں، یہ بیورو کریسی تو بس آنے والے کو مصنوعی سلام کرتی ہے۔

بجائے گورنر ہائوس کے، آپ ڈی سی اور آئی جی کے بڑے بڑے گھروں میں موجود کئی کنال فالتو زمینیں حاصل کریں، غریبوں کو تو بس پانچ مرلے کا مکان چاہئے۔ یہ ہائوس بلڈنگ کارپوریشن کہ جس کی طرف جاتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں۔

اس کو متحرک کریں، جو اس سے ایک دفعہ قرضہ لیتا ہے وہ بھی مشکلوں سے، اس کی دو نسلیں وہ قرضہ اتارتی ہیں ، یہ جو اسلام آباد میں بظاہر صفائی کی مہم چلائی جا رہی ہے اور بڑے بڑے شادی ہال، ہوٹل اور ریسٹورنٹ گرائے جا رہے ہیں، جب انہیں بنانا شروع کیاگیا تھا تو کیا سی ڈی اے۔ سوئی ہوئی تھی۔

یہ جوکچھ بھی ہورہا ہے وہ آپ کے حساب میں لکھا جائے گا،مجھے تو شفقت محمود کے بیانات پر حیرت ہو رہی ہے۔ وہ تو اچھا بھلا پڑھا لکھا آدمی ہے،اسےسارے ثقافتی اور علمی ادارے مل گئے ہیں وہ بس سیاسی بیان بازی نہ کریں، پڑھے لکھے لوگوں کو نصاب کمیٹیوں میں شامل کرکےانہیں دو مہینے کے لئے کمرے میں بند کر کے نصاب بنوائیں۔

سارے ملک کے دیہاتوں میں رہنے والےمیڑک پاس بچوں کو ہر دیہات کے اسکول میں ملازم رکھیں۔ یوں روزگار بھی مل جائے گا اور گائوں میں ڈھائی کروڑ ان پڑھ بچوں کی ابتدائی تعلیم کا مقصد بھی حاصل ہو جائے گا۔ان ڈھائی کروڑ بچوں کو یونیفارم، کتابیں اور کرسیوںکی فراہمی کے لئے اقوام متحدہ کے اداروں اور کمرشل بنکوں پر لازم کریں کہ وہ فنڈز دیں۔

ضروری ہے کہ ملیشیا کی طرح ملک میں لاکھوں مدرسوں اوراسکولوں کوسیدھا سادہ شلوار قمیض اور جدید نصاب دیا جائے ۔ ستر برس کے بعد اور ستر برس گزر سکتے ہیں،انتھک بھٹو صاحب بھی تھے، اور انتھک عمران خان بھی ہیں، تاریخی مقامات کی اپنی میراث ہوتی ہے۔ اس کو قائم رکھیں۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).