ٹوٹی ہوی دیوار (ناول) پانچویں قسط


پانچواں باب
وقت : صبح گیارہ بج کر تیس منٹ
تاریخ:7 نومبر، 2015
مقام : کابل، افغانستان

دوگھنٹے گزرنے کے بعد بھی جب ناظر عزیزی کی کال نہیں آئی اور اُس کا نمبر بھی مسلسل مصروف ملتا رہا تو واحدی نے تنگ آکرکالج کے ایک اور پروفیسر نعمت اللہ خان کو کال ملائی مگر ابھی بیل بجنا شروع ہی ہوئی تھی کہ ناظر عزیزی کی کال آگئی۔ واحدی نے فوراٌ نعمت اللہ خان کی کال کو آف کرکے ناظر عزیزی کی کال لے لی، ’کہاں ہو تم ناظر؟ صبح سے تمھیں کئی بار کالز کر چکا ہوں، کیا چل رہا ہے یونیور سٹی میں؟ مجھے تم نے اُس کے بعد اپ ڈیٹ تک نہیں کیا یار۔ ”واحدی نے ہلکی سی تشویش اور خفگی کے ملے جلے تاثر سے کہا۔

” بس یار میں خود یہاں کچھ چکروں میں گھر گیا تھا۔ اصل مسلۂ یار یونیورسٹی کا نہیں تھا بلکہ بات تمھارے کسی آرٹیکل کی تھی جو کل صبح ٹائم آف افغانستان میں چھپا تھا۔ بس اُسی ارٹیکل پر کچھ طلبہ تنظیمیں تمھارے خلاف ایجی ٹیشن کر رہی تھیں اور تمھیں تو پتہ ہے کچھ اپنے پڑھانے والے بھی اِن کے پیچھے ہیں تاکہ تمھارے خلاف آگ لگا سکیں، یہ گروپ تمھارے آگے کچھ اور ہیں مگر پیچھے سے طالب علموں کو تمھارے خلاف بھڑکاتا رہتا ہے۔ بہر حال میں نے ارٹیکل تو نہیں پڑھا مگر میں نے سنا ہے کہ تم نے شاید اُس میں قومی اورمذہبی آئڈیالوجی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے کہ یہ سب سراسر مصنوعی افکار ہیں اور ان سب کا تعلق محض معاشیات و اقتصادیات کے لیے سیاست سے ہے اوراگر ان کے پیچھے ایسے خود غرضانہ مالی فوائد نہ ہوتے تو انہوں نے کب انسانی تاریخ سے ہی ضائع ہوجانا تھا یا شاید تم نے ایسا ہی کوئی بھاری جملہ بھی کہیں لکھ دیا ہے کہ مذہب اور قوم کے تصور نے اس دنیا کو انسانوں کے بجائے کسی اور ہی پر تشدد مخلوق کی دنیا کا نقشہ بنادیا ہے۔ تم نے کہا ہے کہ حیوانوں کی دنیا کا نقشہ تو عین فطری ہے مگر انسانوں کے قومی اور مذہبی تصورات کی وجہ سے اُن کی دنیا کا نقشہ بدنمائی کی حد تک مصنوعی اور مصنوعاتی ہوگیا ہے۔ ”

” ہاں ہاں تو کیا غلط کہا ہے؟ ناظر یار یہ آرٹیکل کوئی نیا تو نہیں ہے یہ تو ٹائم آف افغانستان میں آج سے تین مہینے پہلے واشنگٹن پوسٹ میں بھی چھپ چکا ہے مگر وہاں تو کسی کے کان پر بھی جوں بھی نہیں رینگی۔ ’ واحدی نے اکتا کر کہا، ’یار یہ نالائق لوگ کب بڑے ہوں گے؟ ’

”اب یہ تو مجھے پتہ نہیں بھائی کہ کب بڑے ہوں گے، بڑے بھی ہوں گے یا اور چھوٹے ہو جائیں گے مگر یا ر تجھے سمجھنا چاہیے وہ واشنگٹن ہے اور یہ کابل ہے، خیر تم ایک کام کرو ابھی تم فوراٌ اپنے گھر مت جانا کیونکہ میں نے اُڑتی ہوئی یہ بات سنی ہے کہ اِن تنظیموں کے پیچھے کچھ شدت پسند جماعتیں بھی ہیں، اب تجھے اپنے ماضی کا تو پتہ ہی ہے نا، اس لیے بہت ممکن ہے تمھارے گھر پر بھی کچھ پتھراؤ وغیرہ ہوجائے۔ ’ ناظر عزیزی نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا، ’ اچھا تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ابھی تم میرے ہی گھر آجاؤ اور اِس سارے آندھی طوفان کو گزرجانے دو، دو چار دن کی تو بات ہے پھر واپس چلے جانا جب سب معاملہ ٹھنڈا ہوجائے۔ ’

” کیا بکواس ہے یار۔ کہاں پیدا ہوگئے ہیں؟ کھل کر بات تک نہیں کر سکتے، کھل کر لکھ نہیں سکتے ’ ’ واحدی نے چڑ کر کہا۔
”ویل پیدا تو ہوگئے یہ ٹھیک ہے پر اِن کے ہاتھوں مرنا نِری بے وقوفی ہے۔ میری بات سمجھا کر و بھائی میں یونیورسٹی سے گھر جارہا ہوں، ابھی یہاں کوئی کلاس نہیں ہورہی ہے، تم بھی سیدھا میرے گھر آجاؤ۔ میں تمھاری بھابی کو فون کرکے تمھاری پسند کے لیمب کباب اور بولانی بنواتا ہوں۔ ’ ناظر عزیزی نے اُسے دعوت دیتے ہوئے کہا۔

” چلوپھر ٹھیک ہے، تم جیسا کہو یار، پھر میں ابھی تمھاری طرف ہی آجاتا ہوں۔ ’ یہ کہ کر واحدی نے فون بند کیا اور ریسٹورانٹ کی پارکنگ سے کار نکالی اور واپس ہائی وے پر آگیا۔

تقریبا دو ڈھائی گھنٹے کے بعد وہ اور ناظر عزیزی ساتھ بیٹھے ہوئے لیمب کباب، بولانی اور کابلی پلاؤ سے لنچ کر رہے تھے، دونوں کے درمیان گفتگو کا موضوع صبح کا آرٹیکل ہی تھا۔ واحدی اپنے مخصوص تقریری انداز میں کہہ رہا تھا، ’بھائی میں نے یہ ہی تو لکھا ہے نا کہ قومیت اور مذہب کے تصورات انسانی ضرورتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تصورات معاشیات یا اقتصادیات کے سہارے پرورش پاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ فرد کی حد تک انسان کی نفسیات اور اقتصادیات کا رشتہ سہل نظر آتا ہے کیونکہ اقتصادیات مثبت نفسیاتی نتائج دیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے مگر اجتماعی طور پر جب قومیت اور مذہب کو اقصادی مصنو عات کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے تو یہ رشتہ پیچیدہ ہو تا چلے جاتا ہے خصوصاٌ جب یہ دونوں مصنوعات ایک دوسرے کے ساتھ ملکر بازار سے برامد ہوتی ہے تو اس کے منفی اثرات فرد کے ساتھ ساتھ پوری قوم پر پڑنے لگتے ہیں۔ بھئی اگر ہم تہذیبی ارتقا ء میں جاکر د یکھیں تو قومیت ہو یا مذہب دونوں کے تانے بانے قبائلی کلچر سے شروع ہوتے ہیں۔ پہلے ایک فرد پھر خاندان پھرایک محلہ او ر پھر ایک قبیلہ اور پھر پورا گاؤں اور آخر میں چند گاؤں آپس میں ملتے ہیں تو ان میں زبان، رسوم رواج، مذہب اور لباس اور قومیت کے مصنوئی تصورات ہی تو ہیں جو ایک دوسرے کو جوڑنے کے لیے گوند کا کردار ادا کرتے ہیں۔ نہیں؟ ”

ناظر عزیزی نے درمیان سے واحدی کی بات کاٹ کر کہا، ’ اسی بات پر تواعتراض ہے بھائی لوگوں کو۔ ’ ناظر نے ایک اور لیمب کباب واحدی کی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا، ’ اُن کا خیال ہے کہ تم نہ تو افغانی ہو اور نا ہی مسلمان۔ بس تم ایک کافر ہو جو مذہب پر یقین نہیں رکھتا ہے اور شاید دشمنوں کے ایجنٹ بھی ہو۔ تبھی تو قومیت کے تصور پر بھی تنقید کرتے ہو کیونکہ تمھیں اپنے ملک سے محبت جو نہیں ہے۔ “

women in afghanistan before and after taliban

باقی تحریر پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2