ایڈیٹروں کی قلابازیاں


اخبارات کا خاندانی جرنلزم

ایک اہل الرائے کا قول ہے، کہ شاعروں، مصوروں، مصنفوں، موسیقاروں، صحافیوں، سنگتراشوں اور دوسرے آرٹسٹوں کی قدرت پیدا کرتی ہے، اور ان میں پیدائشی طور پر ان فنون کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جہاں تک اس قول کے صحیح ہونے کا سوال ہے، دوسرے ممالک میں تو یہ قول شاید درست ہی ہے، مگر جہاں تک صحافت کے پیشہ اور ہندوستان اور پاکستان کا تعلق ہے، اس قول کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ یہاں صحافت کا پیشہ اکثر صورتوں میں خاندانی ہی ہوا کرتا ہے۔ چاہے جرنلزم کے فن کے اعتبار سے اس پیشہ میں شیر کا بیٹا گیدڑ، باز کا بیٹا کوا، ایسشین کا بیٹا فاکس ٹریز، اور عربی گھوڑے کا بیٹا گدھا ہی کیوں نہ پیدا ہو۔ چنانچہ ہندوستان اور پاکستان میں اس قول شکنی کے حق میں ذیل کے صرف چند ثبوت پیش کیے جا سکتے ہیں :۔

1۔ مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر ”زمیندار“ کے صاحبزادہ مولانا اختر علی خاں، اور پوتے مولانا منصور علی خاں ایڈیٹر ”زمیندار“۔
2۔ مہاشہ کرشن ایڈیٹر ”پرتاپ“ کے صاحبزادہ مہاشہ نریندر اور مہاشہ وریندر ایڈیٹر ”پرتاب“۔
3۔ مہاشہ خوشحال چند عرف سوامی آنند سرسوتی ایڈیٹر ”ملاپ“ کے صاحبزادہ مہاشہ لیش اور مہاشہ نبیر ایڈیٹر ”ملاپ“۔

4۔ سردار امرسنگھ ایڈیٹر ”شیر پنجا ب“ کے صاحبزادہ سردار جنگ بہادر سنگھ ایڈیٹر ”شیر پنجاب“۔
5۔ سردار سوہن سنگھ ایڈیٹر ”خالصہ رپورٹ“ کے صاحبزادہ سردار بخشیش سنگھ ایڈیٹر ”موچی“ و پوتے سردار کرپال سنگھ ایڈیٹر ”خالصہ“۔
6۔ حافظ عزیز حسن بقائی ایڈیٹر ”حریت“ کے صاحبزادہ مسٹر انیس بقائی ایڈیٹر ”حریت“۔

7۔ سردار لابھ سنگھ نارنگ ایڈیٹر ”فتح“ کے صاحبزادہ سردار مہندر سنگھ نارنگ ایڈیٹر ”فتح“۔
8۔ مسٹر جگت نرائن ایڈیٹر ”ہند سماچار“ کے صاحبزادہ مسٹر رمیش چندر ایڈیٹر ”ہند سماچار“۔
9۔ ماسٹر تارا سنگھ ایڈیٹر ”پربھات“ کے صاحبزادہ سردار مموہن سنگھ ایڈیٹر ”پربھات“۔

انٹرویو نہ دینے کی سزا

لاہور کے ایک ہفتہ وار اردو اخبار کے ایڈیٹر صاحب جنوبی ہندوستان کے دورہ کے لئے مدراس وغیرہ گئے، تو مرحوم آربندو گھوش کی شہرت آپ کو پانڈیچری بھی لے گئی۔ پانڈیچری پہنچنے کے بعد آپ آربندو آشرم تشریف لے گئے، اور چاہا، کہ مرحوم آربندو گھوش سے ملاقات ہو۔ مگر آشرم کے مینجر نے بتایا، کہ رشی آربندو سال میں صرف ایک روز لوگوں سے ملتے ہیں، اور اس کے علاوہ وہ کسی سے کوئی ملاقات نہیں کرتے۔ آشرم کے مینجر کا یہ جواب ایڈیٹر صاحب کے خون میں تلاطم پیدا کرنے کے لئے کافی تھا۔

آپ واپس لاہور پہنچے، تو آپ نے مرحوم آربندو گھوش کے خلاف سلسلہ وار چار مضامین شائع کیے۔ ان مضامین میں مرحوم آربندو کو مغرور، متعصّب، خود غرض، مکار اور بزدل لکھا۔ ان مضامین کا گو پبلک پر کوئی اثر نہ ہوا، کیونکہ مرحوم آربندو گھوش نہ صرف ہندوستان بلکہ غیر ممالک میں بھی ایک رشی تسلیم کیے جانے تھے۔ مگر ایڈیٹر صاحب نے تو یہ مضامین لکھ کر اپنے دل کو ٹھنڈا کر لیا۔ معلو م نہیں ہو سکا، کہ ایڈیٹر صاحب نے ان مضامین والے چار پرچے مرحوم آربندو کو بھی بھیجے تھے، یا نہیں کیونکہ اردو اخبارات سرخ نشانات لگا کر وہ پرچے ان لوگوں کو ضرور بھیجا کرتے ہیں، جن کے خلاف یہ مضامین ہوں۔

کتاب سیف و قلم سے اقتباس

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon