سرخ قالین، تھر کے مور اور بھوکی لاشیں


رویے جب ایوانِ اِقتدار میں پہنچتے ہی تبدیل ہونا شروع ہو جائیں تو مہر ثبت ہو جاتی ہے کہ اقتدار ”تھوہڑ دِلوں“ کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ سونے پہ سہاگہ جب عوامی دھوکہ دہی کو تبدیلی کا لبادہ اوڑھا کہ اسے سر بازار رونمائی کو کہا جا رہا ہو تو توقعات و امیدوں کے مینار ایسے زمیں بوس ہو جاتے ہیں کہ دھڑام کی مخصوص آواز بھی نہیں آتی کیوں کہ پختگی کے معیارات سے یہ امیدیں دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتی اور ریت کی خاصیت رکھتی ہیں۔

اعتراض کسی بھی صورت کسی کی ذات سے ہو تو اسے حسد و جلن سے تعبیر تو کیا جا سکتا ہے مگر اعتراض بہرحال نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اگر اعتراض کا ماخذ ایسا لمحہ، ایسا واقعہ یا وقت ہو جس کے اثرات بطور مجموعی معاشرتی اقدار کو نیلام کر رہے ہوں تو اعتراض نہ صرف حقیقی ہوتا ہے بلکہ اس کا سنا جانا بھی لازم ہوجاتا ہے۔ اور یہ فرض اقتدار کی غلام گردشوں میں گوڈے گوڈے دھنسے اشرافیہ کا ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بھی اعتراض کو اپنی ذات سے منسلک کرنے کے بجائے ایک دفعہ تو کم از کم مجموعی معنوں میں دیکھنے کی کوشش کریں کہ بے شک آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز جیسی ہی لیکن پھر بھی کونوں تک پہنچ تو رہی ہے اور کانوں تک پہنچتی آواز پہ کسی بھی قسم کا کوئی ردعمل دینا آدمیت کی پہچان ہے۔ کانوں میں انگلیاں ڈال کے بے حسی کا روزہ رکھ لینے سے تو آپ انسانیت کے رائج معیارات سے بہت نیچے گر جاتے ہیں۔ چاہے آپ کا تعلق عوامی طبقے سے ہو یا صاحبانِ اقتدار سے۔

تھر کی پہچان کسی دور میں ناچتے مور ہوا کرتے تھے، لیکن آج کل تھر کی پہچان بھوکے سسکتے نونہال، قحط سالی کے ہاتھوں تہی داماں تھری اور پانی کی شدید کمی سے انسان تو کجا جانوروں تک کے پنجر ہیں۔ دو اکتوبر دو ہزار اٹھارہ، وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے سندھ سے پاکستان تحریک انصاف کے وفد، جس میں پارٹی کے سندھ سے صدر اور جنرل سیکریٹری شامل تھے، سے ملاقات کے دوران تھر کے حوالے سے اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا۔

اس بات میں دو رائے ہو بھی کیسے سکتی ہیں کہ وزیرا عظم پاکستان بھلا تشویش سے بڑھ کے کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ مہربانی کیا ہوتی کہ انہوں نے وزیر صحت سے تھر کا دورہ کرنے کو بھی کہہ دیا۔ اب وہ بھلا کیا جانیں کہ وہ دورہ کر کے بھی کیا کریں گے۔ دورہ کرواتے تو وزیر توانائی کا کراتے کہ جو وہاں جا کر شمسی توانائی سے چلنے والے پلانٹ لگانے کے بارے میں سوچ وچار کرتے (اور اگر ہو سکے تو یہ بھی جانچ کروا لیجیے کہ 81 میں سے نصف سے زیادہ واٹر سپلائی سکیمیں ابھی تک غیر فعال کیوں ہیں، اور لگے ہاتھوں آراؤ پلانٹس کی صورت حال کا جائزہ لے لیجیے۔ پانی کے فلٹریشن پلانٹس پہ کہیں قبضہ مافیا تو سرگرم نہیں ہو چکاوقت ملے تو اس کا بھی جائزہ لیجیے)۔

ناچتے موروں اور لوک دھنوں کی اس سرزمین کے لیے نئی حکومت میں خوشخبریاں قطار بنائے کھڑی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پانچ اکتوبر سے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل کے وفاقی وزیر جناب فیصل واوڈا اور محترم گورنر سندھ جناب محترم عمران اسماعیل صاحب نے تھر کا دورہ کیا ہے۔ موروں کے ساتھ اب تھر واسیوں کا رقص بھی تو بنتا ہے کہ ان کے نمائندوں نے ان کے علاقے کا دورہ کیا ہے۔ اور اسی لیے تو تھریوں نے شاید خود ہی خوشی میں محترم وفاقی وزیر صاحب اور گورنر صاحب کے پیروں میں تھر کی گرم ریت کی حدت نہ پہنچنے دینے کے لیے سرخ قالین بچھا دیا تھا۔

جی جی وہی ریڈ کارپٹ جسے کہتے ہیں۔ جو اشرافیہ کے قدموں سے زیادہ ذہنوں سے چمٹا ہوتا ہے۔ اور وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ عوام جس مٹی پہ چلتے ہیں اس مٹی پہ چلنا بھی ان کے شایان شان نہیں ہے۔ اور ریڈ کارپٹ علاقے کا دورہ کر کے ہی بھلا ان صاحبان نے کم مہربانی کی ہے۔ ظاہری بات ہے تھری لوگ تو انتہا کے مضبوط ہیں۔ صحرا کی گرم ریت، بھوک سے مرتے بچے، پانی کو ترستے لب تو ان کے لیے نئی بات نہیں۔ ہاں مگر حکومتی نمائندوں کا علاقے کا دورہ یقیناً ایک نئی اور اچھنبے کی بات تو ضرور تھی۔ اور ہمارے نمائندے جس کروفر سے سرخ قالین پہ خراماں خراماں چلے جا رہے تھے اس پر وقار تقریب اور خوشی کے لمحے میں یقیناًتھر کے مر جانے والے وہ نونہال جنہیں نہ علاج کی مناسب سہولت مل سکی، نہ ہی کھانے کو کچھ مل پایا ان کی روحیں تو بہت شاد ہوں گی۔ اور ہمارا گریباں بھلا وہ کیوں پکریں گی۔ وہ تو روزِ محشر ہمارے پرتپاک استقبال کو کھڑی ہوں گی۔

پانی کی ناکام اسکیمیں ہوں یا بند ہوتے آر او پلانٹس، تھر کے ذخائر کو تھریوں کی فلاح کے لیے استعمال کیے بنا پورے ملک کو فائدہ پہنچانا ہو یا پھر صحرا میں شمسی توانائی سے تیار ہونے والے منصوبوں میں کرپشن کی داستانیں، تھر کے رہائشیوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی بات ہو یا پھر تعلیم کی فراہمی، سب معاملات کو ایک طرف رکھ چھوڑیے۔ ہم تو بس اس پہ خوش ہیں کہ تبدیلی سرکار کے گورنر صاحب اور وزیر صاحب نے دورہ تو کیا تھر کا۔ باقی سرخ قالین کا بھلا ان سے کیا گلہ ہو۔

تھری پاؤں ریت پہ چلنے کے عادی ہیں، سو چلتے ہیں۔ اے سی روم میں بیٹھے ہمارے نمائندے بھلا کہاں تھر کی گرمی سہہ سکتے ہیں۔ اور اسی لیے ان کو تھر کے تپتے صحرا میں بھی جہاں لوگ پیاس اور بھوک سے مر رہے ہیں ریڈ کارپٹ ویلکم کیا گیا۔ ان کا حق بھی تو بنتا ہے۔ کہاں گئے تھر کے ناچنے والے مور، کیا ہوا بھوک سے مرتے بچوں کا، کیا ہوا بھوک سے خشک لبوں کا سب کو رکھیے ایک طرف ذرا ملاحظہ کیجیے کہ ہمارے نمائندوں پاؤں تلے بچھا سرخ قالین کتنا خوبصورت ہے۔ اور آئیے ایک نیا تبدیلی کا نغمہ گنگنائیں، تبدیلی تبدیلی کردے نی میں آپے تبدیل ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).