نشہ، پولیس اور اقبالِ جرم


میں ان کو کیا جواب دیتا۔ یہ نسخہ کئی روز تک دوستوں میں تفریح کا باعث رہا، کیونکہ سوامی جی سے ملنے کے لئے شام کو کئی دوست آیا کرتے۔ میں نے دیکھا، کہ یہ بھی گانجہ پینے کے باعث اپنی قوت ارادی سے قطعی محروم ہو چکے تھے۔ گانجہ کے فروخت کرنے کی سرکاری طور پر ممانعت تھی، مگر انہوں نے جامع مسجد کے قریب ناجائز گانجہ فروخت کرنے والوں کو تلاش کر لیا تھا۔ اگر وہاں کوئی گانجہ فروش نہ ملتا، تو بے چارے گانجہ خریدنے کے لئے غازی آباد جاتے، اور وہاں سے حاصل کرتے۔

گانجہ کے متعلق ایک بہت ہی افسوسناک واقعہ ہے۔ نابھ کے ایک اچھے خاندان کے ایک نوجوان کو گانجہ پینے کی عادت تھی۔ اس نوجوان کی عمر بیس برس کی تھی۔ اس کے والدین نے ا س کی شادی کر دی۔ کیونکہ ہندوستان میں چاہے کوئی بیکار ہو، اور اپنا گزارہ بھی نہ کر سکے، اس کے والدین اس کی شادی ضرور کر دیتے ہیں۔ شادی کے بعد بھی جب یہ نوجوان کوئی کام نہ کرتا، اور گانجہ پیتا، تو گھر والے اس کو کوستے۔ یہ گھر والوں کی دشنام طرازی سے تنگ آگیا، تو یہ بیوی کو لے کر گھر والوں سے الگ ہو گیا۔

الگ ہونے کے بعد نہ آمدنی کا کوئی ذریعہ تھا، گانجہ پینے کے باعث یہ اپنی قوت ارادی سے قطعی محروم ہو چکا تھا، اور اس کے علاوہ اس کی صحت بھی تباہ ہو چکی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا، کہ اس کی بیوی آوارہ ہو گئی، اور یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر نہ صرف خاموش رہتا، بلکہ اپنی بیوی کے ذریعہ اپنے اخراجات بھی پورے کرتا۔ یعنی گانجہ کے نشہ کے باعث یہ بالکل تباہ اور اپنے خاندان کے لئے باعث ندامت ثابت ہوا۔

میں دہلی جیل میں تھا، کہ وہاں آرمینین نسل کا ایک موٹر ڈرائیور جیل میں لایا گیا، جس کو دہلی پولیس نے اس شبہ میں گرفتار کیا، کہ وہ جاسوس ہے۔ یہ شخص مسٹر شاہ کا موٹر ڈرائیور رہا تھا، اور مسٹر شاہ وہ اہم شخصیت تھے، جنہوں نے عرب کو انگریزوں کے زیر اثر رکھنے میں بہت بڑا پارٹ ادا کیا تھا۔ اس آرمینین کو چائے پینے کی بہت عادت تھی۔ یہ جب جیل میں آیا، اور میں اس سے ملا، تو اس نے ملتے ہی سب سے پہلے یہ سوال کیا، کہ خدا کے لئے مجھے ایک کپ چائی دو۔

کیونکہ چائے نہ ملنے کے باعث یہ بہت بے حال تھا، میں نے اس کو چائے پلائی، تو یہ کچھ مطمئن سا تھا۔ میرا یقین ہے، کہ اگر یہ بے چارا جاسوس ہوتا، اور چائے کی طلب اس کو مجبور کرتی، تو یہ اپنے ملزم ہونے کا فوراً اقرار کر لیتا، مگر یہ قطعی بے قصور تھا۔ چائے نہ ملنے کے باعث یہ بھی اپنی قوت ارادی سے قطعی محروم ہو چکا تھا، کیونکہ حوالات میں اسے چائے نہ دی گئی تھی، اور چائے نہ، ملنے کے باعث یہ اپنے دماغی توازن سے بھی ایک حد تک محروم ہو چکا تھا۔

میں اصولاً شراب پینے کے خلاف نہیں ہوں، اور اگر بہت تھوڑی مقدار میں اچھی شراب پی لی جائے، تو اسے صحت کے لئے مفید سمجھتا ہوں۔ چنانچہ بہت برس ہوئے ہندوستان کی ایک بہت بڑی میڈیکل اتھارٹی جنرل سوکھے نے مہاتما گاندھی کے اخبار ”ہری جن“ میں شراب پینے کے حق میں ایک مضمون لکھا تھا، اور شراب کے قطعی ممانعت کے قانو ن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا، کہ چالیس برس کی عمر کے بعد انسان کو اپنی صحت قائم رکھنے کے لئے تھوڑی سی شراب ضرور پینا چاہیے۔ کیو نکہ اس عمر کے بعد انسان کے جسم کو الکحل یعنی شراب کی ضرورت ہے اور میں بھی کبھی کبھی نصف پیک کے قریب کھانا کھانے سے پہلے برانڈی پیتا ہوں۔

میں اپنی پچھلی تمام زندگی میں کبھی شراب سے مغلوب نہ ہوا، اور اکثر ایسا ہوا، کہ میں نے کئی کئی ماہ تک شراب کو چھوا تک نہیں، حالانکہ شراب میرے گھر میں موجود رہی۔ مگر میں ادنیٰ کلاس کی شراب اور اس کے زیادہ پینے کو قوت ارادی کے لئے تباہ کن اور صحت کے لئے سخت مضر سمجھتا ہوں، اور ان لوگوں کو قابل رحم قرار دیتا ہوں، جو شراب سے مغلوب ہو کر اپنی قوت ارادی سے قطعی محروم ہو جاتے ہیں، اور قوت ارادی سے محروم ہونے کے باعث جرائم کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ میری رائے ہے، کہ ہندوستان کی گورنمنٹ، افیون، چرس، گانچہ، تمباکو اور شراب پر سخت پابندیاں عائد کرے، اور ان کا فروخت اور استعمال قابل تعزیر جرم قرار دے کائے۔ مگر اچھی قسم کی شراب مثلاً برانڈی وغیرہ میڈیکل سرٹیفکیٹ پرمٹ کے ذریعہ ضرورت مند لوگوں کو دی جائے۔

کتاب سیف و قلم سے اقتباس

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon