ایک سرکاری فائل کی آپ بیتی


میں ایک فائل ہوں، سرکاری دفتر میں بوسیدہ الماری کے بند کواڑ کے پیچھے بے شمار فائلوں کے ساتھ دفن ایک فائل۔ کہنے کو تو یہ الماری ہے مگر حقیقت میں یہ دھتکاری ہوی فائلوں کی اجتماعی قبر ہے، اور جب ایک بار کوئی قبر میں چلا جائے تو انتہائی مجبوری یا دباؤ میں ہی قبر کشائی کر کے اسے نکالا جاتا ہے۔ مدتوں بعد جب کبھی یہ کواڑ کھلتا ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ کسی اور کی بھی تدفین ہونے لگی ہے اور ہوتا بھی ایسا ہی ہے لیکن جب کبھی کسی فائل کوباہر نکالا جائے تو ہم سب اسے رشک سے دیکھتے ہیں کہ کون ہے یہ خوش نصیب جس کے لئے قبر کشائی کی زحمت فرمائی گئی ہے۔

ہمارا گورکن زیادہ تر ایک کلرک ہوتا ہے جسے لوگ کلرک بادشاہ کہتے ہیں جو اصل میں جانتا ہے کہ تدفین اور قبر کشائی کے قوائد و ضوابط کیا ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کس فائل نے کتنا عرصہ اس کی میز پر قیام کرنا ہے، کس فائل نے بڑے بابوؤں کے دفاتر کی سیر کرنی ہےاور کس نے دفن ہونا ہے، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کس مردہ فائل کو دوبارہ زندہ کرنا پڑ سکتا ہے لہٰذا وہ اس کو باقی فائلوں کے اوپر رکھ دیتا ہے اور اس طرح ہم دھتکاری فائلیں مزید بوجھ تلے آ کر اپنی قسمت کو کوستی رہتی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ہر فائل کے ساتھ ایک سا سلوک ہوتا ہو، فائل کے نصیب میں وہی سلوک لکھا جاتا ہے جو اس فائل سے متعلقہ لوگ یا لوگوں سے ہوتا ہے۔ اگر فائل کسی غریب کی ہے تو بس سمجھ لیجیے بیچاری کا نصیب بھی اسی غریب جیسا ہو گا، دھتکارا ہوا، خوشی اور منزلِ مقصود سے دور، لمبی قطاروں میں لگا ترسی نظروں سے اپنی باری کا انتظار کرتا، ڈرا سہما سب سے بچتا بچاتا کونوں میں زندگی گزارتا کہ نہ جانے کب کون کسی بے وجہ کی بات پہ لتاڑ کے گزر جائے۔ لیکن جو دوسرے قبیلے کی فائلیں ہیں ان کا تو کیا ہی کہنا، جیسے امیر اور اثرورسوخ والے لوگوں کا ہمارا ملک میں پروٹوکول ہے ویسا ہی پروٹوکول ان کی فائلوں کا ہے یہ چند فائلیں اپنے ناز نخرے اٹھواتی ہیں اور ہم ہزاروں نادار فائلوں کو منہ چڑاتی ہیں، کلرک بادشاہ ان کو چھوتا بھی نزاکت سے ہے کہ کہیں ان نازک حسیناؤں کو درد نہ ہو، سجا کر اپنے میز پر رکھتا ہے اور زیادہ لاڈلیوں کو تو اپنے دراز میں رکھتا ہے بار بار نکال کے صاف کر کر کے یوں پڑھتا ہے جیسے محبوبہ کے خطوط ہوں۔

ہم غریب فائلوں کی شکل مہینوں نہیں دیکھتا لیکن لاڈلی فائلوں کے بارے میں اس کو زبانی یاد ہوتا ہے کہ کون سے صفحہ پر کون سے سنہری حروف درج ہیں۔ جیسے غریب آدمیوں کی بڑے افسر بابوؤں کے دفاتر تک رسائی نہیں اسی طرح ان کی فائلوں نے بھی کبھی ان پر تعیش کمروں کا نظارہ نہیں کیا لیکن ان لاڈلی فائلوں کو کلرک بادشاہ سینے سے لگائے یوں خوشی سے جھومتے لہلاتے بڑے صاحب کے کمرے کی طرف جا رہا ہوتا ہے جیسے کوئی مدتوں کا ترسہ دلہا اپنی سہاگ رات منانے جا رہا ہواور آگے سے بڑے صاحب بھی اس فائل کی طرف فوراً سے ایسے متوجہ ہوتے ہیں جیسے ان کی زوجہ ماجدہ تشریف لے آئیں ہوں۔ میز کی ایک طرف بڑے صاحب طمطراق سے کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں اور دوسری طرف سے فائل ان کے سامنے کھول کر کلرک بادشاہ آدھا میز اور فائل پر جھکا ہوتا ہے تا کہ صاحب کو فائل کا صفحہ اپنے نازک ہاتھوں سے پلٹنا نہ پڑے۔

ہر فائل صاحب کے آگے رکھ کر سب سے پہلے یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ کس طاقتور ہستی کی ہے، اس کے لئے کس کس کا فون آیا یا اس فائل کی برکت سے کتنا ”فضلِ ربی“ حاصل ہوا یا ہو گا۔ فائل پیش کرنے کے یہی بنیادی اصول ہیں جن پر ایمان کی حد تک عمل کیا جاتا ہے ورنہ کیا مجال کسی عام شخص یا فائل کی کہ وہ صاحب اور کلرک کا ایمان متزلزل کر سکے۔ لوگ ان دفتروں کے باہر ایڑھیاں رگڑتے رگڑتے سالوں گزار دیتے ہیں اور فائلیں الماریوں میں پڑی پڑی دیمک سے گھل جاتی ہیں لیکن مجال ہے جو صاحب یا کلرک اپنے بنیادی اصولوں سے ایک انچ بھی ہٹ جائیں۔

ہماری بڑی بوڑھی فائلیں بتاتی ہیں کہ انگریز کے زمانے میں تو ان صاحب لوگوں کے بھی صاحب ہوا کرتے تھے، اصلی صاحب، ان دنوں ہم غریب فائلیں بھی بڑے دفتروں میں آتی جاتی رہتی تھیں۔ اور کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوا کہ بڑے صاحب غریب کی فائل کے لئے بڑے لوگوں کی فائلوں کو بھی نظر انداز کر دیتے تھے اور اسی وجہ سےوہ کافر ہونے کے باوجود دعائیں لیتے تھے اور یہ بعد والے اپنی برادری اور اپنے مذہب سے ہونے کے باوجود بد دعائیں ہی لے رہے ہیں۔ شاید اسی لئے ہماری بڑی بوڑھی فائلیں انگریز صاحبوں کو اصلی صاحب کہتی ہیں کیونکہ صاحب تو پھر وہ ہی ہے نا جو کچھ تو اپنا قانون قاعدہ منوا لے، ورنہ وہ کہاں کا صاحب جو ایک فون پہ لیٹ جائے یا چند پیسوں پہ بک جائے۔ یہ لوگ اصلی صاحب جیسے نہیں ہیں یہ تو ان کی چھوڑی ہوئی ہڈیوں پہ ٹوٹ پڑے ہیں اور ایسے ٹوٹے پڑے ہیں کہ ملک آدھا چلا گیا باقی جو رہ گیا وہ بھی زخمی اور نڈھال ہے مگر ان کا نہ پیٹ بھر رہا ہے نہ ان کی آنکھوں کی بھوک ختم ہو رہی ہے۔ یہ نقلی بابو ٹھاٹھ باٹھ اور رعب دبدبے میں ان اصلی صاحبوں کو نقل کرتے ہیں مگر ”کوا چلا ہنس کی چال“ اور ان کی کارکردگی سے جو ملک کا حال ہوا جیسے ”بندر کے ہاتھ ماچس“۔

بڑی بوڑھی فائلیں جب انگریز دور کی باتیں کرتی ہیں تو ان کی آنکھوں میں چمک سی آ جاتی ہے کہ کیسے وہ بھی توجہ لیتی تھیں، ان کے صفحات پر کتنے ہی حکم درج ہیں جن سے کئی غریب لوگوں اور غریب علاقوں کی داد رسی ہوئی۔ جب وہ مگن ہو کر ہمیں ماضی کے قصے سنا رہی ہوتی ہیں تو ہم پوچھتی ہیں کہ ”وہ دور اتنا اچھا تھا تو اس سے پیچھا کیوں چھڑوایا“۔ تو وہ کچھ کھوٹے سکوں کا ذکر کر کے بات ٹال دیتی ہیں یا کہتی ہیں کہ اس دور سے اس لئے پیچھا چھڑوایا تا کہ ہم اپنا دور بنا سکیں۔ پھر جب ہم کہتی ہیں کہ ”تمھاری باتوں سے تو لگتا ہے کہ وہ دور اپنا تھا کیونکہ اسی دور میں اپنے کام ہو تے تھے“ تو جھٹ سے ہمیں ڈانٹ کر کہتی ہیں ”اپنا ملک اپنا ہوتا ہے“، لیکن پھر ان بڑی بوڑھیوں کی ٹھنڈی آہ صاف بتاتی ہے کہ اپنوں سے یوں لٹنے کا دکھ بھی اپنا ہی ہوتا ہے کہ کیسےان اپنوں کے لئے سب غریب لوگ انگریزوں سے لڑتے مرتےرہے اور ان انگریزوں کو نکالا جو غریب کی سن لیتے تھے اور پھر ان اپنوں کو سر پہ بٹھایا جنہوں نے غریبوں لاچاروں کو تو دھتکار ہی دیا لیکن ساتھ ساتھ وہ اس ملک کو بھی لاچار کر رہے ہیں۔ شاید ان لوگوں کے پاس کوئی ”پلان بی“ ہو کہ خدا نخواستہ کشتی ڈوبنے لگے تو اگلا بندوبست تیار ہو مگر کروڑوں غریبوں اور ان کی اس واحد کشتی کا کیا بنے گا، کھوٹے سکے تو سب کھسک لیں گے، مگر مخلص لوگ کس سوچ کے ساتھ باقی زندگی گزاریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).