مجھے قبر کی نہیں ، گھر کی چھت چاہئے!


عالمی فنڈز اور دیگر قوتیں کہے جارہی ہیں کہ ہمسایوں سے تعلقات استوار کرو، تجارت بڑھائو۔ یہ بھی کہ گزشتہ20برس میں پاکستان کی درآمدات سو فی صد بڑھی ہیں اور برآمدات 50فیصد کم ہوئی ہیں۔ یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ پاکستان جب تک پیداواری ذرائع کو فروغ نہیں دیگا کہ لٹیا…اللہ نہ کرے ڈوبے، مگر اقدامات جیسے سرکاری ملازموں کو گھر دینے کی سہولت اور پاجی! یہ سہولت تو زیادہ چھوٹے سرکاری ملازمین کو اس دن سے حاصل ہے جس دن سے اسلام آباد آباد ہوا۔

سب آب پارہ میں پچاس برس سے ان ٹوٹے پھوٹے گھروں میں رہ رہے ہیں اور گزارے کے لئے ہر گھر والے نے ایک ایک کمرہ کرائے پر بھی دیا ہوا ہے۔ بجائے اسکے کہ نئی زمین خریدی جائے۔ آب پارہ کی اتنی قیمتی زمین کے ان خوردہ فلیٹوں کو گراکر ملٹی اسٹوری کوارٹر بنائیں۔

اس طرح ڈپٹی کمشنروں کی35کنال زمین میں سے25کنال لیکر ان پر بھی ملٹی اسٹوری بلڈنگ بنائی جائیں توزمین کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔ اب سرمایہ کہاں سے آئیگا۔ قرضے تو ہائوس بلڈنگ کارپوریشن ایسے دیتی ہے کہ دو نسلوں تک اس کی ادائیگی معہ سود، مکمل نہیں ہوتی ہے۔رہا دیگر بینکوں کا مسئلہ، کوئی14فیصد پر دیتا ہے تو کوئی24فیصد پر، غریب کیا کرےگا۔

کمال تو یہ ہے کہ وہ ایک خاتون جو اس پروجیکٹ کی سربراہ ہیں۔ وہ توبات ہی نہیں کرتیں جبکہ غریبوں میں ایسی کھلبلی مچی ہے۔ لگتا ہے عید آنے والی ہے،ہر شخص کے ہاتھ میں چھابڑی اور تصور میں چھت ہے۔ پھر وہی تھڑے پر بیٹھے ہوئے سوال کرتے ہیں’’یار یہ تو بتا بجلی تواس وقت پوری نہیں تو ہمارے لیے کہاں سے آئے گی۔

یہی بحث گیس اور پانی کی چل رہی ہے۔ آپ کسی رکشے والے سے پوچھ لیں۔ چھلّی بیچنے والے، سائیکل پر امردو بیچنے والے سے پوچھ لیں۔ ایک ہی سوال ہے ’’باجی بتائیں، ہمارے سر پر چھت کیسے آئے گی۔ ایک دل جلے نے تو یہ بھی کہہ دیاکہ ایک طرف کچی آبادیاں گرارہے ہیں ۔ ایک طرف بنے بنائے گھر، ہوٹل، ویڈنگ ہال اور ریسٹورنٹ گرارہے ہیں۔

شہر کی صفائی کے نام پر ٹھیلوں والوں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ دوسرے بجلی بم، مہنگائی بم اور گیس بم کے ساتھ یہ خدشہ بھی ہے کہ سردیوںمیں شاید گیس پچھلے سال کی طرح رات بارہ بجے آیا کرے گی۔

اندیشوں میں سردیاں شروع ہورہی ہیں۔ اب ڈرائی فروٹ اتنے مہنگے ہیں کہ مونگ پھلی پر ہی قناعت کرنی پڑےگی۔ چلغوزے تو مدت ہوئی دیکھے ہوئے،بادام اور کاجو کی قیمت ہی نہیں پوچھی جاسکتی تو چلو گڑ اور چنے ہی سے کام چلے گا۔ کھانے میں مکئی کی روٹی، گندلوں کا ساگ۔ لے بھئی ہماری غربت کے خوابوں کا منظر نامہ تو بن گیا مگر چھابڑی والا پھر آگیا ہے، پوچھ رہا ہے’’باجی دو کمروں کا گھر ملےگا کہ ایک بڑا سا کمرہ بنادینگے!

خیر ہے ہم اس میں بھی گزر کرلینگے بس جلدی بی بی پیرنی سے پوچھ کر بتائیں ہم گھر کی چابی لینے کب آئیں‘‘۔ بہت صبر کرنے کا کہتی ہوں مگر میری دائی ماں کہتی ہے ’’مرنے سے پہلے، اپنی چھت کے نیچے سونا ہے‘‘۔ میں اسکی معصومیت پر ہنستے ہوئے کہتی ہوں۔ دعا کرو، ہمارا وزیر اعظم بڑے دل والا ہے، وہ پاکستانی کروڑ پتیوں سے کچھ نہ کچھ ڈھیلا کرلے گا۔

البتہ یہ نہ کیجئے گا کہ آپ بھی پٹواریوں کے دھوکوں میں آجائیں۔ مجھے یاد آتا ہے نواب کالا باغ کہا کرتے تھے کہ سارا ملک مجھ سے اور میری مونچھوں سے ڈرتا ہے، مگر میں اپنے پٹواری سے ڈرتا ہوں، وہ کسی کی زمین میرے نام خسرہ نکال کر دیدےگا اور کسی کو میری زمین ۔میں کچھ بھی نہیں کرسکونگا۔

یہ الگ بات کہ پرانی انارکلی میں ایک غریب آدمی تھیلے میں نقلی مونچھیں بیچنے نکلا۔ نعرہ لگایا مونچھیں لگائو، مفت کارعب۔ وہ دن میں چند مونچھیں بیچ سکا، پھر کیا تھا۔ پولیس پکڑ کر لے گئی۔ آگے انجام آپ خود سوچ لیں۔اب تو عام گھریلوخواتین بھی کہہ رہی ہیں۔ ہم لوگ بھی عمران خان کے جلسوں میں جاتے تھے۔

اب کمیٹیاں بن رہی ہیں کسی خاتون کا نام نہیں۔ مجھے پوچھتی ہیں’’آپ شکایت ہم سب کی طرف سے لکھیں۔ ٹی وی کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں ایک خاتون نہیں۔ اتنی پڑھی لکھی خواتین کمرشل اور پرائیویٹ اداروں اور بینکوں کی سربراہ ہیں۔ یہ اخبار والیا ں خاص کر اردو اخبار والیاں کہانیاں بھی لکھتی ہیں تو ماڈل، فلمی اور ٹی وی آرٹسٹوں کے بارے میں، ان خواتین کے بارے میں نہیں جو اپنی محنت سے اعلیٰ منصب پر پہنچی ہیں۔

پھر مجھے میری مائی ٹوکتی ہے’’باجی مجھے قبر کی چھت نہیں گھر کی چھت چاہئے۔ اپنی سیاسی باتیں چھوڑیں۔ وزیرِ اعظم کو کہیں مجھے گھر دلادیں‘‘۔ اس وقت میرے علم میں لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں جو نادرا سے فارم لینے کے علاوہ، بازار میں ڈیڑھ سو روپے کا خرید رہے ہیں۔ خدا کرے فارم لینے کے بعد، انکے چہروں کی خوشیاں اور تابندہ ہوں۔

اب خزاں کا موسم شروع ہورہا ہے۔ بہار کے موسم میں نئے گھر کیسے لگیں گے ! آج کل سارے غریب شیخ چلی بنے ہوئے ہیں مگر دیہات میں ابھی تک مایوسی ہے۔ کل میں ساگ لینے گئی تو ساگ توڑتی بی بی نےکہا باجی کچھ ہمارے لئے بھی کروائیں ہم نے سنا ہے شہر کے لوگوں کو گھر مل رہے ہیں۔ انکی امیدوں کو مایوسی میں مت بدلئے گا۔پہلی دفعہ بھٹو صاحب کے بعد، عمران خان کی جانب لوگ امیدیں ہاتھوں میں لیے کھڑے ہیں۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).