معذوری اور باوقار سماج


نیویارک سٹی میراتھن دنیا میں منعقد ہونے والی دوڑوں میں اہم مقام رکھتی ہے۔ مجھے اکتوبر 1987؁ء میں موقع ملا کہ میں بھی اس دوڑ میں شریک ہوسکوں۔ اس دوڑ میں بہت ساری بے شمار متاثر کن باتیں تھیں مگرجس بات نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھا کہ میں نے پہلی دفعہ اتنی بڑی تعداد میں معذور بچوں، عورتوں اور مردوں کو اس میراتھن میں شریک دیکھا۔ بیساکھیوں، خاص قسم کی چھڑیوں اور مختلف قسم کی پہیوں والی گاڑیوں پر بے شمار لوگ چھبیس میل دو سو پینسٹھ گز کی اس دوڑ میں شامل تھے۔

بیساکھیوں اور پہیہ گاڑیوں کے ساتھ معذور لوگوں کے علاوہ بینائی سے محروم افراد، ذہنی پسماندگی کے شکار بچے اور بڑے بھی اس دوڑ میں شرکت کررہے تھے۔ میں جہاں نیویارک میراتھن کے انتظامات سے متاثر ہوا تھا اس کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں مختلف اقسام کے معذور افراد کو دی جانے والی عزت سے حیران رہ گیا تھا۔

ہر قسم کے معذور افراد کی ضرورت کے مطابق ہر طرح کی سہولتیں وافر طریقے سے ہر طرف موجود تھیں۔ ہزاروں افراد کے سمندر کو چھبیس میل کے طویل فاصلے کو طے کرنا تھا اور اس تمام راستے پر کسی بھی آدمی کو کوئی بھی ضرورت پیش آسکتی تھی، دل کا دورہ پڑسکتا تھا، دوڑنے والا تھک کر گر سکتا تھا یا کسی بھی قسم کے حادثے کا شکار ہوسکتا تھا۔

عام انسانوں کی ضرورت کا اہتمام تو آسان ہوتا ہے لیکن معذور افراد کی ضرورتیں ان کے معذوری کی اقسام سے وابستہ ہوتی ہیں۔ پہیہ گاڑی کے مسافر اور بیساکھی استعمال کرنے والے کی ضرورتوں میں فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح سے نابینا افراد اور ذہنی پسماندگی کے شکار لوگوں کومختلف قسم کی سہولتیں درکار ہوتی ہیں۔ اچھی بات یہ تھی کہ نیویارک میراتھن میں یہ سہولتیں بہت عمدہ طریقوں سے فراہم کی گئی تھیں۔ میں نہ صرف یہ کہ حیران ہوا بلکہ حیرانگی کے ساتھ میراتھن کی تنظیم سے مرعوب بھی ہوگیا تھا۔

میراتھن دوڑنے کے دوران مجھے خیال آتا رہا کہ نیویارک میراتھن میں معذورلوگوں کی تعداد مقابلتاً زیادہ کیوں ہے۔ کیونکہ اس سے قبل میں ڈبلن، لندن اور برلن میراتھن دوڑچکا تھا وہاں بھی میں نے معذور افراد دیکھے تھے اور وہاں بھی میں معذور افراد کے لیے کیے گئے انتظامات سے متاثر ہوا تھا لیکن نیویارک کے شاندار انتظامات بہت ہی اچھے تھے شاید یہی وجہ ہو کہ اس میراتھن میں معذور افراد کی تعداد زیادہ تھی۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں پندرہویں میل پر تھا تو ایک آدمی دو بیساکھیوں کے ساتھ دوڑ رہا تھا۔ اس کے دونوں پاؤں گھٹنوں کے اوپر سے کٹے ہوے تھے اور وہ دونوں بغلوں میں بیساکھی کو پھنسائے ہوئے تھا۔ میں اسے دیکھ کرحیران ہوگیا اور اس سے گفتگو شروع کردی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں ڈبلن آئرلینڈ سے آیا ہوں اور یہ میری پانچویں میراتھن ہے۔

اس نے جواب دیا کہ اس کے والد کا خاندان آئرلینڈ سے آکر امریکا میں آباد ہوا ہے۔ جبکہ اس کی ماں کی طرف سے وہ جرمن ہے اور ساتھ ہی یہ بتا کر اس نے حیران کردیا کہ یہ اُس کا سولہواں میراتھن ہے۔ میں دل ہی دل میں اس آدمی سے بہت متاثر ہوا جو دو پیروں کے بغیر بیساکھی کے سہارے سے میراتھن دوڑ رہا تھا اور میرے مقابلے میں زیادہ ہشاش بشاش تھا اور میری طرح سے پانچویں میراتھن پر مغرور نہیں تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ دنیا کتنے بہادر لوگوں سے بھری ہوئی ہے جو اپنی کامیابیوں کے باوجود انکساری سے کام لیتے ہیں۔ اس نے مجھے یہ بتا کر مزید حیران کردیا کہ وہ سو میراتھن دوڑنا چاہتا ہے۔

میں نے اس سے پوچھا کہ نیویارک میں معذورلوگوں کی غیرمعمولی تعداد کیوں ہے۔ اس نے بتایا کہ اس میراتھن میں بہت سے سابقہ امریکی فوجی ہیں جو ویت نام اور کوریا کی جنگ میں معذور ہوئے تھے اور وہ اس میراتھن میں شریک ہوتے ہیں۔ میں معذور افراد کی زیادہ تعداد کی وجہ سمجھ گیا تھا۔ اس میراتھن کے بعد جب بھی یورپ کے کسی شہر کی میراتھن دوڑا ہوں تو میں نے معذور افراد کے لیے کیے گئے انتظامات کو غور سے دیکھا، ان سے متاثر اور مرعوب بھی ہوا ہوں۔

نہ جانے کیوں ہمیشہ پاکستان کے معذور افراد کے بارے میں سوچا ہے اور سوچ کر شدید تکلیف بھی ہوئی ہے کہ ہمارے ملک میں معذور افراد کے لیے نہ تو سہولتیں ہیں نہ ہی حکومت ان پر توجہ دیتی ہے اور عام شہری بھی ان کے حالات سے ناواقف ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم سب کا رویہ معذور افراد کے لیے ہمدردانہ تو ہے مگر دوستانہ نہیں ہے۔

کسی بھی سماج میں معذور افراد کو دی جانے والی سہولتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سماج کتنا انسانیت پرور ہے اور ایسے لوگوں کا کتنا خیال رکھتا ہے جو عام انسانوں کی طرح نہیں ہیں۔ جو خاص لوگ ہیں اور کسی وجہ سے معذوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ یہ معذوری پیدائشی بھی ہوسکتی ہے یا پیدا ہونے کے بعد کسی حادثے کی بناء پر رونما ہوسکتی ہے۔ یہ معذوری جسمانی بھی ہوسکتی ہے اور اس کا تعلق ناقص ذہنی نشوونما سے بھی ہوسکتا ہے۔ ذہنی نشوونما میں کمی پیدائشی بھی ہوسکتی ہے اور پیدائش کے بعد کسی بیماری یا مکمل غذائیت نہ ملنے سے بھی ہوسکتی ہے۔

اس سماج میں معذور افراد کے نام سے پہچانے جانے والے ان خاص لوگوں (مرد اور عورتوں) کو بھی سماج میں اتنی ہی عزت وتوقیر ملنی چاہیے جو کسی بھی شہری کا پیدائشی حق ہے۔ معذور افراد کو عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ انہیں روزمرہ کی زندگی میں وہ تمام سہولتیں حاصل ہونی چاہئیں جو ان کی ضرورت ہے۔ مثال کے طورپر سڑکوں اور فٹ پاتھ پر اس بات کی سہولت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی بیساکھیوں اور پہیے والی گاڑیوں کے ساتھ چل سکیں۔ سرکاری دفتروں اور بینکوں کے جیسے اداروں میں انہیں آنے جانے میں تکالیف کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔ کسی بھی جگہ عوامی بیت الخلا سے لے کر بڑے بڑے کاروباری مراکز، شاپنگ پلازہ، تفریح کے اداروں (کھیل کے میدان، میوزیم) اور درسگاہوں میں اس بات کا اہتمام ہو کہ وہ باآسانی اس جگہ کو استعمال کرسکیں۔

اسی طرح سے نابینا افراد کے لیے سڑکوں پر خاص ابھرے ہوئے نشانات ہوتے ہیں جن سے وہ اندازہ کرلیتے ہیں کہ وہ یہاں سے سڑک پار کرکے دوسری جانب جاسکتے ہیں۔ بہت سے ملکوں میں نابینا افراد اپنے خصوصی کتوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ خصوصی کتے تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور وہ نابینا افراد کے روزانہ کی نقل و حرکت میں ان کی مددکرتے ہیں اور انہیں کسی بھی جگہ جانے کی اجازت ہوتی ہے۔

جب ایک سماج یہ تسلیم کرلیتا ہے کہ معذور افراد (ذہنی یا جسمانی) ہمارے سماج کا حصہ ہیں اور ان کے بھی وہی حقوق ہیں جوسماج میں دوسرے لوگوں کے ہیں تو سماج ایسے افراد کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور ضروریات کے مطابق ان کی زندگی کوآسان کرنے کے لیے سہولتیں بھی بہم پہنچاتا ہے۔ معذور یا خصوصی افراد کی باوقار زندگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ سماج بھی باوقار ہے۔ ایک بے وقار سمجھنے میں کمزور اور معذور آبادی بھی بے وقار ہی ہوتی ہے۔

ہم لوگ عام زندگی میں کچھ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن سے معذورافراد کی دل آزاری ہوتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہم لوگ معذورافراد کے وقار کا کوئی خیال نہیں رکھتے ہیں، مثال کے طور پر اندھا، بہرہ، لولا، لنگڑا، ٹنڈہ، کھبّا، باؤلا، پاگل، چریا، لجاّ جیسے الفاظ جسمانی اور ذہنی طور پر معذور افراد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ الفاظ اور ان کے ادا کرنے کا لہجہ بھی بہت خراب ہوتا ہے، مثال کے طورپر

ابے اندھے!
ابے باؤلے!
لنگڑا جارہا ہے۔

عام زندگی میں اس قسم کے الفاظ اور لہجے کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ سماج ذہنی اور جسمانی طور پر معذور افراد کواہمیت نہیں دیتا اور نہ ہی ان کی عزت کرتا ہے۔ جو سماج معذور افراد کی عزت نہیں کرتا درحقیقت وہ سماج خود شدید قسم کی سماجی بیماری کاشکار ہوتا ہے۔

آج کی دنیا میں ایسے ممالک جو تہذیب یافتہ ہیں ان ممالک میں ذہنی اور جسمانی طورپر معذور افراد کے لیے تمام سہولتیں میسر ہیں۔ یہ لوگ سماج میں کارآمد افراد کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ ہم لوگوں کو بھی ایسے ممالک اور قوموں سے سیکھنا چاہیے، انفرادی اور اجتماعی طور پرعوام میں آگہی پیدا کرنا چاہیے تاکہ معذور افراد بھی سماج میں باعزت زندگی گزارسکیں اور انہیں سماج میں وہی مقام حاصل ہو جو تہذیب یافتہ ملکوں میں حاصل ہے۔

گوہر تاج نقوی نے بہت ہمت اور حوصلے کے ساتھ ”اجالوں کے سفیر“ کے نام سے یہ کتاب مرتب کی ہے جس کا مقصد آگہی پیدا کرنا ہے۔ ان لوگوں کے درمیان جو معذوری کوعذاب سمجھ کر معذور لوگوں سے نفرت کرتے ہیں یا معذور لوگوں کو اس قدر معذورسمجھتے ہیں کہ انہیں سماج میں مناسب مقام دینے کو تیار نہیں ہیں۔ گوہر نے ایسے لوگوں کا انٹرویو کیا ہے جوخودمعذور ہیں یا ذاتی طورپرمعذورافراد کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے احساسات وتجربات کو تحریر میں لا کر گوہر نے عام انسانوں کو ان کے درمیان پہنچادیا ہے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ ان کی زندگی کیسے گزرتی ہے، کیسی گزررہی ہے۔ انہوں نے ہم سب کو موقع دیا ہے کہ ان کے بنائے ہوئے جھروکے سے ہماری دنیا میں موجود ایک اور دنیا میں جھانکا جاسکے۔ اس دنیا کی ہر کہانی دلچسپ ہے اور ہر کردار اپنے اندر ایک داستان ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2