اسرائیلی طیارے کی خفیہ آمد کی خبر اور پاکستانی خارجہ پالیسی


25 اکتوبر بروز جمعرات، اسرائیل کے موقر روزنامے ہاریٹز کے انگریزی ایڈیشن کے مدیر ایوی شراف نے سوشل میڈیا پر ایک انکشاف کر کے سنسنی پھیلا دی۔ شراف کے ٹویٹ کے مطابق، ایک نجی بزنس جیٹ طیارے نے تل ابیب سے اسلام آباد کے لئے اڑان بھری اور دس گھنٹے کے قیام کے بعد واپس آیا۔ دوران سفر طیارے نے عمان میں مختصر قیام کیا تاکہ اس پرواز کو کاغذی کارروائی اور تکنیکی حجت کے لئے عمان سے اسلام آباد کی پرواز کہا جا سکے۔

یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ پاکستان اور اسرائیل، مذہبی نظریات پر قائم ریاستیں ہیں جن کا ظہور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد، استعماری اور آبادیاتی نظام کے منہدم ہونے پر ممکن ہوا۔ یہ تاریخی حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، اسرائیل کو یورپ کا ناجائز بچہ قرار دیتے تھے۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بین گوریان نے محمد علی جناح کو ٹیلیگرام کے ذریعے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی درخواست کی۔

1948 کی اسرائیلی جنگ آزادی میں پاکستان کی نو مولود ریاست نے عرب ممالک کی ہر ممکن مدد کی اور اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے شانہ بشانہ لڑنے کی پالیسی اپنائی۔ 1967 اور 1973 کی عرب اسرائیلی جنگوں میں پاکستان نے عرب ممالک کا ساتھ دیا۔ پاک فضائیہ کے ہوابازوں نے مصری لڑاکا طیارے اڑاتے ہوئے، متعدد اسرائیلی طیارے مار گرائے۔ 80 کی دھائی کے اوائل میں اسرائیلی حکومت، مسلم ممالک خاص کر عراق اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت اور جوہری طاقت کے حصول کی کوششوں سے خائف اور غیر محفوظ ہو چکی تھی۔

تاریخی دشمنی اور مخاصمت کے باوجود دونوں ممالک نے کئی بین الاقوامی معاملات میں ایک دوسرے کی معاونت کی اور امریکی چھتری تلے اشتراک اور تعاون بھی کیا۔ خاص طور پر پاکستان کے سابق آمر حکمران جنرل ضیاءالحق کے دور میں یہ روابط عسکری معلومات کے تبادلے اور خفیہ ایجنسیوں کے اشتراک کے لئے وسیع پیمانے پر استعمال ہوئیے۔ 1980 کی دہائی میں جب سرد جنگ اور افغان جہاد اپنے عروج کو پہنچے، تو پاکستانی آئی ایس آئی اور اسرائیلی موساد نے امریکی دارلحکومت واشنگٹن میں سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں برسر پیکار افغان مجاہدین کے لئے مشترکہ فوجی حکمت عملی بنائی جس کو ”آپریشن سائیکلون“ کا نام دیا گیا۔

1991 میں سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد دنیا کے سیاسی معاملات اور بین الریاستی تعلقات میں دور رس اور مستقل تبدیلیاں رونما ہوئی۔ جس کو امریکی دانشوروں نے نیو ورلڈ آرڈر کا نام دیا۔ ریاستوں کے تعلقات میں قومی سلامتی کے بجائے تجارت اور اقتصادی تعاون کو فوقیت حاصل ہو گئی۔ لیکن عرب۔ اسرائیل تعلقات جنگ و جدل کا شکار ہی رہے۔ 90 کی دہائی میں اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم میں اضافہ ہوتا گیا اور مشرق وسطیٰ میں امن کی امید معدوم ہوتی چلی گئی۔

11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر خود کش حملوں کے بعد، دہشتگردی کے خلاف ایک اعصاب شکن اور طویل جنگ نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 2004 میں عراق پر امریکی حملے نے مشرق وسطی کو شدید عدم استحکام سے دو چار کیا۔ جس کے نتیجے میں سعودی عرب سمیت بہت سے عرب ممالک سیاسی بے یقینی اور اندرونی خلفشار کے شکار ہوتے چلے گئے۔ لیبیا اور مصر میں عشروں سے قائم آمریتوں کے تخت، انقلابی تحریکوں کی مدد سے امریکی ایما پر الٹا دیے گئے۔

خون اور بارود سے بھر پور اس بہار کے نتیجے میں لیبیا اور شام مکمل تباہ ہو گئے، لاکھوں افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے۔ انارکی کی اس بہار کے بطن سے داعش جیسی خطرناک تنظیم نے جنم لیا اور شیعہ/سنی تنازعات جو راکھ میں چنگاری کی مانند دبے ہوئے تھے، الاؤ بن کر بھڑک اٹھے۔ 2014 میں فرقہ واریت کی یہ آگ پھیلتی ہوئی سعودی عرب کے پچھواڑے یمن تک آ پہنچی۔ شیعہ حوثی قبائل نے ایران کی مدد سے یمن میں قائم سعودی نواز سنی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور سعودی حکومت نے یمنی شیعہ قبائل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔

ایران کی دشمنی اور تکفیری قدامت پسندی کے بطن سے پھوٹتی دہشتگردی نے سعودی عرب کو اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی متعارف کرائی گئی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی اصلاحات اسی بدلتی سوچ کا شاخسانہ ہیں۔ قریب 40 سال تک سعودی عرب تے تکفیریت اور عسکریت پسند مکاتب فکر کی سر پرستی کے لئے ساری دنیا میں پیٹرو ڈالر لٹائے اور اس بہتی گنگا میں خاص طور پر پاکستان کی جہادی تنظیموں نے کھل کر اشنان کیا۔

دوسری طرف اسرائیل، ایران کی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کے ہاتھوں بہت سے زخم اٹھا چکا ہے۔ اسرائیل کے خلاف، جوہری ہتھیاروں کے حصول کے ایرانی عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ جیسا کہ پرانی کہاوت ہے، دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ اسی فلسفے کے تحت حالیہ برسوں میں مشرق وسطی کے اہم سنی ممالک جن میں سعودی عرب اور دبئی شامل ہیں، ایران دشمنی میں اسرائیل کے قریب آ چکے ہیں۔ خلیجی ممالک کے سیاسی معاملات کے تناظر میں دیکھیں تو سعودی عرب اور اسرائیل کے مفادات میں اب فطری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی جریدے ”دی اٹلانٹک“ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ”میرا یقین ہے کہ تمام افراد کو دنیا میں ایک پر امن قوم کے طور پر بسنے کا حق حاصل ہے۔ اور میرا یہی یقین اسرائیلی اور فلسطینی افراد کے بارے میں بھی ہے، کہ ان کو اپنی زمین پر ملکیت کا حق حاصل ہے“۔ تاریخی تناظر میں یہ بیان سعودی عرب کی اسرائیل کے معاملے میں ستر سالہ پالیسی کی یکسر نفی اور تبدیلی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب سعودی شاہی خاندان کے ہونے والے فرمانروا نے با ضابطہ اور ببانگ دہل، اسرائیل کی حقیقت اور ریاستی وجود کو نہ صرف تسلیم کیا، بلکہ دیر پا امن، خطے کے استحکام اور تعلقات کے نئے باب کے آغاز کے لئے امن معاہدے پر بات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف وہ پہلے پاکستانی حکمران تھے جنہوں نے کھل کر، عوامی سطح پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پرویز مشرف پہلے پاکستانی سربراہ حکومت تھے جنہوں نے امریکہ میں سب سے بڑی اسرائیل نواز تنظیم American Jewish Congress سے خطاب بھی فرمایا اور سنہ 2005 میں اپنے وزیرخارجہ خورشید قصوری کو اسرائیلی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کا حکم بھی صادر کیا۔ یہ وہ اقدامات تھے جو کوئی بھی منتخب، سویلین پاکستانی حکمران، غداری کے فتووں کے ڈر سے اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان ایران کے خلاف کسی نئی صف بندی کا جزو بن کر ایک نئی پراکسی وار میں کودنے والا ہے؟ یمن کی جنگ میں بڑھتی ہوئی قتل و غارت، سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور اس میں پاکستان کے سابق سپہ سالار کا مرکزی کردار، ریاست پاکستانی کی غیر جانبداری پر سنگین شکوک شبہات پیدا کرتا ہے۔ سنہ 2014۔ 15 میں یمن کی جنگ کے لئے جب سعودی عرب نے تعاون مانگا تو پاکستان کی پارلیمان نے جنگ میں براہ راست شمولیت سے انکار کیا اور غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2