نیا نیا پاکستان، غیر سیاسی پولیس اور سیاسی گائے


حالیہ دنوں میں ایک سیاسی گائے نے ہمارے پورے نظامِ عدل و پولیس کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اور ستم ظریفی دیکھئے کہ اس سارے ہنگامے میں اگر کسی کا بال بھی بیکا نہیں ہؤا تو وہ وہی سیاسی گائے ہے، اُس سیاسی گائے کے علاوہ اس قضیے میں شامل تمام کردار کسی نہ کسی طور اس واقعے سے متاثر ہؤے ہیں اور کرداروں کے نام بھی ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ نابالغ بچے، عورتیں، پولیس کے آئی جی صاحب، دو وفاقی سیکریٹری صاحبان، ایک امیر کبیر وزیر صاحب اور خود ہماری غیر سیاسی پولیس۔

اس واقعے کی مرکزی ملزمہ یعنی سیاسی گائے ہماری غیر سیاسی پولیس کے ہتھے نہیں چڑھی اور صاف بچ گئی ہے۔ نہ تو ایف آئی آر میں بطور ملزم یا بطور گواہ شامل کی گئی ہے اور نہ ہی امیر کبیر وزیر صاحب نے اُس کی کوئی شکایت کی ہے۔ ٹی وی چینلز پر اُس شریر سیاسی گائے کی تصاویر دکھائی گئی ہیں اُن سے صاف لگتا ہے کہ وہ نہ تو اپنےکیے پر نادم ہے اور نہ اُسے آئی جی کے تبادلے کا کوئی افسوس ہے۔

البتہ اس چالاک اور شرپسند سیاسی گائے نے ہماری غیر سیاسی پولیس کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے اُس سے کئی سیاسی سبق حاصل ہوتے ہیں۔ چونکہ ہر دور کے حکمرانوں نے چاہے وہ پرانے پاکستان کے ہوں یا نئے نئے پاکستان کے، اپنے آپ پر سبق سیکھنے کے خلاف سخت پابندی عائد کی ہوئی ہے، اس لئے ہیر پھیر کے بعد عام آدمی ہی رہ جاتا ہے کہ سبق حاصل کرے۔ لہٰذا اُس شرارتی سیاسی گائے کے مالک خاندان کے عام آدمیوں کو سبق سکھانے کی ٹھان لی گئی اور سبق سکھا دیا گیا۔ باقی عام آدمی کہ جن کو خوش قسمتی سے سبق نہیں سکھایا گیا وہ دل برداشتہ نہ ہوں بلکہ اُس خاندان سے عبرت حاصل کریں۔

ہمارے دوست مرزا بھی اس سیاسی گائے ہی کو اس سارے فساد کی جڑ سمجھتے ہیں۔ اُن کے بقول نہ گائے ہوتی نہ وہ ایک امیر کبیر وزیر صاحب کے سونے کے درختوں کو نقصان پہنچاتی نہ وزیر صاحب طیش میں آتے، نہ آئی جی صاحب اس امتحان میں پڑتے اور نہ وزیر اعظم صاحب کو آئی جی صاحب کو راتوں رات چھٹی والے دن ٹرانسفر کرنا پڑتا اور نہ یہ سیکرٹری صاحبان اس مشکل صورت حال کا شکار ہوتے۔

ہم نے مرزا سے پوچھا کہ کوئی کیسے اُس وزیر کبیر کے طیش سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ فرمایا صرف دو صورتیں ہیں کہ وزیر صاحب کی دستبُرد سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ آپ خود ہی وزیر ہوں اور دوسرے یہ کہ آپ گائے ہوں۔ ہمیں عام آدمی کے لئے نجات کی دوسری صورت یعنی گائے ہونے میں زیادہ امکانات نظر آتے ہیں۔

ہمیں مرزا کی اس بات میں بہت وزن نظر آتا ہے کہ اگر آپ گائے ہیں تو امکانات ہیں کہ آپ کسی امیر کبیر وزیر کے سخت گیر رویے سے محفوظ رہیں اور ساتھ ہی کسی آئی جی وغیرہ کی نوکری کو بھی خطرے سے محفوظ رکھیں۔ اس رائے کی خوبی یہ ہے کہ عام آدمی یعنی ہمیں، گائے بننے میں کوئی اعتراض بھی نہیں ہو گا اور نہ ہی کوئی خاص دقّت پیش آئے گی۔ چونکہ عام آدمی کو گائے رہنے اور مذید کئی جانوروں کی مانند زندگی گزارنے کا خاطر خواہ تجربہ ہے اس لئے وہ اس تجربے کی مدد سے کسی بھی وقت حسبِ ضرورت گائے بن سکتا ہے اور نئے پاکستان کے بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔

مرزا سے پوچھا کہ کیا گدھا بننے سے بھی عام آدمی کو کوئی رعائت مل سکتی ہے۔ فرمایا کہ پہلے عام آدمی کو گدھا بننے سے امیر کبیر وزیروں سے نہ صرف رعایت مل جاتی تھی بلکہ ایک وقت کا کھانا بھی مل جاتا تھا۔ مگر اب نہیں۔ فلم ڈونکی کنگ آنے کے بعد امراء کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ گدھا ایک سیاسی جانور ہے اور وہ کسی وقت بھی بادشاہ بننے کے خواب دیکھ سکتا ہے لہٰذا باوجود اس کے کہ بڑے لوگ عام آدمی کے گدھا بننے پر خوش تو ہوتے ہیں، مگر نہ تو عام آدمی نہ ہی گدھے کو کوئی رعائت دینا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی چونکہ ابھی کسی گدھے پر کسی عام آدمی کے فارم ہاؤس کو کوئی نقصان پہنچانے کا الزام نہیں لگایا گیا ہے لہٰذا گدھوں نے ان معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں لی ہے اور بات گائے کی برادری پر ہی چھوڑ دی ہے۔

اس واقعے سے جہاں نئے نئے پاکستان میں سیاسی اور غیر سیاسی پولیس کا فرق واضع ہو گیا ہے وہیں یہ بات بھی عیاں ہو گئی ہے کہ نئے نئے پاکستان میں جانوروں کا سیاسی کردار پرانے پاکستان والا ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).