نیازی حکومت ہر روز نیا ”کٹا“ کیوں کھولتی ہے؟


جمہوری حکومت میں اگر وزراء اہل نہ ہوں تو بیورو کریسی کو نکیل کون ڈال سکتا ہے، یہاں کوئی حفیظ پیرزادہ، ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف رامے، کھر، چوہدری اعتزاز احسن، پرویز صالح جیسے لوگ تو نہیں کہ جن کے سامنے متعلقہ محکمہ کا سیکرٹری دم نہ مار سکے۔ ملک کی 62 فیصد آبادی کے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ جن اعلیٰ حضرت کو بنایا گیا ہے، وہ دنیا کے دس حکمرانوں کے نام نہیں بتا سکتے۔ نواز شریف نے وائیں کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا مگر ڈیفیکٹو وزیراعلیٰ شہباز شریف موجود تھے۔

اب تو ڈیفیکٹو وزیراعلیٰ بھی کوئی ایک نہیں، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت ابتداء میں ہی اس نہج پر آگئی ہے جس پر سابقہ ادوار میں حکومتیں اپنے آخری دنوں میں ہوا کرتی تھیں۔ اس حکومت کو شخصی حکومت کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ عمران خان ہر روز ایک نیا پھڈا کیوں شروع کر دیتا ہے۔

مشرف باقیات نے سیاست میں بہت بڑا ظلم کیا کہ بیورو کریسی میں سیاسی دھڑے بندی کی بنیاد فرقہ واریت کی طرح رکھ دی۔ اہل حکمران بیوروکریسی کے تابع نہیں ہوتے۔ اس فلسفے کو سمجھنے کے لیے اس واقعہ پر غور کریں۔ بھٹو صاحب کے ایک دوست نے ان سے کسی پولیس آفیسر کو کسی ضلع میں ایس پی لگانے کی سفارش کی۔ بھٹو صاحب نے جو بے تکلف دوست تھے اس کو گالی دیتے ہوئے ٹال دیا۔

چند دن بعد آئین پاس ہونے کی خوشی میں منعقد کی گئی ایک تقریب میں اسی دوست کی بھٹو صاحب سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو بھٹو صاحب گاڑی سے اترتے ہی اپنے اس دوست کو ایک طرف لے گئے چند منٹ علیحدگی میں بات کی، پھر ان سے الگ ہوتے ہوئے کہا کہ تم ایک ایس پی کی ٹرانسفر کے لیے آئے تھے، اب جس کی مرضی ٹرانسفر کروا لینا۔ یہ چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، آئی جی ہیں، ان سے مل لیں، آپ کا مسئلہ حل کر دیں گے۔ پھر ایک دن بھٹو صاحب نے اس صاحب کو بتایا کہ اگر میں تمہارے کہنے پر اس کی تعیناتی کر دیتا تو اس نے آئی جی کے قابو نہیں آنا تھا کہ اس کا سفارشی تو ایک وزیراعظم ہے۔

اب نہ جانے یہ الیکٹیبلز، یہ جماعتیں بدلنے والے یہ دھڑلے سے ڈھٹائی کرنے والے سیاست دان جو دشت سیاست کی بدنامی کا سبب ہیں، عمران خان سے کیسی کیسی غلطیاں کروا رہے ہیں۔ اگلی حکومت میں یہی سب لوگ ہوں گے لیکن تب عمران خان نیب بھگت رہا ہو گا۔ دو ماہ کی حکومت میں تین آئی جی حضرات کا تبادلہ تشویش ناک ہے، کام کیسے چلے گا؟ کے پی میں بھی ایسا ہی ہوا تھا لیکن بیوروکریسی کی ہڑتال پر سب کارروائیاں ختم کرنا پڑی تھیں۔

ایک واقعہ میں پنجاب کے ایک وزیر کا بیٹا پولیس اہلکاروں کو سفید رنگ کی کار ایل ای سی 4968 میں اغوا کر کے لے گیا اور جب مقدمہ درج ہوا تو اس کے اخراج کا ناجائز مطالبہ نہ ماننے پر آئی جی پنجاب کو تبدیل کرنا پڑا۔ کھلے عام رنگ ریلیاں بھی منائی اور وزارت کا رعب بھی قائم رکھا۔ اب وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی اسلام آباد میں اپنے فارم ہاؤس کے قریب واقع خیمہ بستی کی زمین ہتھیانا چاہتے ہیں۔ آئی جی اسلام آباد کیپٹن (ر) جان محمد نے نا انصافی کے اس کھیل سے بچنے کے لیے وزیر صاحب کا فون سننا چھوڑ دیا۔

اس پر اعظم سواتی نے پہلے وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریار آفریدی کو شیشے میں اتارا اور بعد میں وزیر اعظم عمران خان کے بھی کان بھرے۔ اس طرح یہ دونوں وزرا، عمران خان سے آئی جی کی تبدیلی کا فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ محمود الرشید کے بیٹے کو پکڑنے پر آئی جی پنجاب تبدیل۔ اعظم سواتی کا فون نہ سننے پر آئی جی اسلام آباد تبدیل۔ خاور مانیکا کا کہنا نہ ماننے پر ڈی پی او پاکپتن تبدیل۔ عوام کو تبدیلی مبارک ہو۔

میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب اسی حکومت میں ہو رہا ہے۔ یہ سب اداوار کا المیہ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا ایک مرتبہ ایک جنگلی بِلا رائے وِنڈ کے شاہی باغ میں گْھس گیا اور ایک دو قیمتی موروں کی گردن مروڑ دِی، ایک ایس پی اور کئی دیگر اِہلکار کئی دِن معطل رہے، بِلے کی لاش مِلنے تک معطل ہی رہے۔ ایک دفعہ چکلالہ ایئر پورٹ پر چوہدری نِثار صاحب نے ایک یوْنیفارم پہنے ایس ایس پی کو یوں حکم دیا، ”کل ریلی ہے سائیکلز کی اگر کْوئی بندہ بیچ میں گْھسا نا تو تْم گئے کام سے۔ “ حاصل کلام یہ ہے کہ تبدیلی تو نہ آئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).