صفائی نصف ایمان ہے


مشہور و معروف بات ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ پاکستان میں جگہ جگہ پڑے کچرے کو دیکھہ کر ہمارے ایمان کی دولت کا اندازہ لگانا کافی آسان ہے۔ ایسا لگتا ہے گند ہماری عادت بن چکی ہے۔ ایئرپورٹ ہوں، مساجد کے بیت الخلا ہوں یا بازار۔ اکثر گندے ہیں۔

ہر مذہب اور تہذیب یافتہ معاشرے میں صفائی کو اہمیت دی گئی ہے۔ پھر ہمارے ملک میں اتنی گندگی کیوں ہے؟ کیا ہمیں بس باتیں بنانا آتیں ہیں؟

صفائی کی ذمہ داری ریاست کے اداروں کی بھی ہے اور عوام کی بھی۔ گلی کوچوں میں کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں جن کو اٹھانا اور ٹھکانے لگانا اداروں کا کام ہے لیکن انتظامیہ کے ناتواں کاندھے صفائی کا بیڑا اٹھاتے کانپتے دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں میں کچرے کو بھی کمائی کا ذریعہ بنالیا گیا ہے کورا کرکٹ سے بجلی بھی بنائی جاتی ہے لیکن یہاں کچرا صرف بیماریوں کی ماں کا کردار ادا کررہا ہے۔

ہمارا ملک ہیپاٹئٹئس میں دنیا میں دوسرے اور گردوں کے امراض میں آٹھویں درجے پر ہے۔ فضائیں ہماری آلودہ ہیں، پانی زہریلا۔ کچرا اٹھانے اور تلف کرنے کے جدید طریقے استعمال نہیں کررہے، کچرا پھینکا زیادہ جاتا ہے اٹھایا کم جاتا ہے اور سونے پہ سہاگہ سڑکوں پر خاکروب جھاڑو لگاتے عجیب انداز میں مٹی اڑاتے ہیں جو فضا میں پھیلتی ہے اور سانس کے ذریعے لوگوں کے پھیپڑوں میں جاتی ہے۔

رہی بات عوام کی تو گند کے انبار لگانے کے اصل قصور وار یہی ہیں، چلتی گاڑیوں سے سڑک پر کچرا پھینکا جاتا ہے، عوامی مقامات کو گندا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، کچرا کنڈی کے بجائے گھر سے باہر گند پھینک کر اطمینان کا سانس لیتے ہیں کہ محفوظ ہیں لیکن کچرے سے پیدا ہونے والے جراثیم انہی کی صحت کو نشانہ بناتے ہیں۔

لوگوں کے اس عمل کی وجہ سوچ، کم علمی، تربیت کی خامی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بسنے والوں کو ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ ان میں صیح اور غلط کا احساس پیدا ہونا چاہیے تاکہ وہ کچرا پھیلانے اور بڑھانے سے باز رہیں۔ تربیت کے زیادہ مستحق والدین ہیں، بڑے ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر بچے سیکھیں اور گندگی سے نفرت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).