داتا گنج بخش اور کشف المحجوب، ذرا مختلف زاویے سے


علی عثمان ہجویری کی عرس کے مناسبت سے جناب حامد میر کا کالم ”مرشد کی تلاش“ شائع ہوا ہے۔ 27 اکتوبر کو داتا صاحب کی عرس کے موقع پر لاہور میں داتا گنج بخش عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں درجن بھر ممالک سے مندوبین نے شرکت کرکے داتا صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ذیل کے سطور اس کالم کے مشتملات کی تصحیح یا تنقید کے غرض سے نہیں لکھے جار ہے البتہ مذکورہ کالم سے یہ تحریک ضرور ملی کہ بطور تذکر اس موضوع پر کچھ باتیں عرض کردی جائیں۔

تصوف کی دنیا میں داتا گنج بخش کی ذات اس لیے ممتاز حیثیت رکھتی ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ”کشف المحجوب“ کی شکل میں عجم کی زبان میں ایک ایسی کتاب لکھ دی جو ان کے بعد ہمیشہ کے لیے اس میدان کے بنیادی حوالوں میں سے ایک اہم حوالے کے طور پر مانا جاتا ہے۔ علمِ تصوف کا ذوق رکھنے والے طالب علموں کے لیے جن چار کتابوں کا مطالعہ ضروری سمجھاجاتا ہے ان میں سے ایک اہم کتاب ”کشف المحجوب“ ہے جو کہ داتا صاحب کی گوہر بہا تصنیف ہے، اس کتاب کے علاوہ علمِ تصوف کے اساسی مآخذ میں ابوبکر کلا آبادی کی کتاب ”التعرف“، عبدالکریم ہوازن القشیری کی ”رسالہ قشیریہ“ اور نجم الدین رازی کی کتاب ”مرصاد العباد“ کو شمار کیاجاتا ہے۔

داتا گنج بخش علی ابن عثمان ہجویری صوفیانہ تعلیمات کی بنیادی نصاب کے حوالے سے جتنے معروف ہیں، ان کے ذاتی حالات زندگی کی تفصیلات اتنے ہی مبہم ہیں، اس ابہام کی وجہ سے ہی ان کے بارے میں کچھ ایسے کوائف بھی مسلَّمہ حقائق کے طور پر پیش کیے جاتے ر ہے ہیں جوکہ حقیقت میں استناد کی اس درجے سے بہرور نہیں ہیں۔ مثلا

۔ یہ کہ داتا صاحب نے ہجویری کی نسبت خود اپنے آپ کے لیے اختیار کی تھی۔

۔ یہ کہ انہیں گنج بخش کا خطاب ان کی وفات سے ڈیڑھ صدی بعد خواجہ غریب نواز معین الدین اجمیری نے دیا تھا۔

۔ یہ کہ کشف المحجوب فارسی زبان میں تصوف پر لکھی گئی اولین کتاب ہے۔

۔ یہ کہ داتا صاحب کا انتقال سن 465 ہجری میں ہوا تھا۔

لیکن یہ تمام آراء خود داتا صاحب کی فرمودات کی روشنی میں زیادہ مضبوط اور مستند بنیاد سے محروم ہیں۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے ان کی نسبت سے شروع ہوتا ہے، علی ابن عثمان نے کشف المحجوب میں اٹھائیس مرتبہ اپنا نام علی ابن عثمان الجلابی لکھا ہے اور صرف ایک مقام پر الجلابی کے ساتھ ہجویری کا بھی اضافہ کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنا شناخت علی ابن عثمان الجلابی کے طور پر رکھنا چاہتے تھے لیکن نہ معلوم کیا سبب بنا کہ ان کو الجلابی کی نسبت سے آج بمشکل ہی پہچانا جاسکے گا۔

علی ہجویری نے دنیا میں داتا گنج بخش کے لقب سے شہرت پائی ہے لیکن یہ لقب انہیں کب اور کیسے ملا، اس سوال کے جواب بھی ایک سے زیادہ ہیں۔ عام طور پر تقریبا ان کے تمام سوانح میں یہ واقعہ لکھا جاتا ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی آپ کے مزار پر معتکف ر ہے، دم رخصت انہوں نے داتا صاحب کے روضہ کے سرہانے کھڑے ہوکر یہ شعر کہا کہ

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

لیکن کشف المحجوب مطبوعہ ایران کے مقدمہ میں ڈاکٹر قاسم انصاری اور کشف المحجوب کے عربی ترجمے مطبوعہ مصر میں ڈاکٹر اسعاد عبدالھادی نے لکھا ہے کہ حضرت ہجویری سے منسوب ”کشف الاسرار“ کی عبارت سے خواجہ اجمیری والے واقعے کی صحت مشکوک ہوجاتی ہے۔ داتا صاحب کشف الاسرار میں اپنے آپ سے مخاطب ہوکر لکھتے ہیں کہ ”اے علی! لوگ تو آپ کو تمہارے اس افلاس میں بھی گنج بخش کہتے ہیں لیکن تم اس سے غرور میں نہ پڑو، کیونکہ حقیقی بخشنے والا خدا تعالی ہے“ اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ مذکورہ بالا شعر خواجہ معین الدین کا ہی ہو لیکن گنج بخش کا لقب انہیں خواجہ معین الدین نے نہیں دیا بلکہ داتا صاحب کی اپنی زندگی میں ہی انہیں گنج بخش کی خطاب سے یاد کیا جاتا رہا ہے۔

داتا گنج بخش ہجویری ایک نازک طبیعت اور حساس روح رکھنے والے مسافر اور سیاح صوفی تھے، انہوں نے اپنے معاصر شیوخ میں سے اکثر سے براہ راست فیضیابی کے لیے ماوراء النھر سے لے کر شام کی پہاڑوں تک کے علاقے پر اپنے قدم کے نقوش ثبت کیے ہیں اس حوالے سے ان کے مناقب پر بہت زیادہ لکھا گیا ہے، تصوف کی دنیا میں ان کی تصنیف کشف المحجوب کی بلند ترین حیثیت میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اس موضوع سے متعلق ایک اہم سوال اس دعوے سے متعلق ہے کہ کشف المحجوب فارسی زبان میں تصوف کی سب سے پہلی کتاب ہے۔

یہ دعوہ واقعیاتی اور دستاویزی شہادت کی روسے کچھ زیادہ بر محل نہیں لگتا یہاں تک کہ کشف المحجوب نام بھی داتا صاحب کی تصنیف سے بہت پہلے کسی کتاب کے لیے استعمال ہوچکا تھا کیونکہ کشف المحجوب کے نام سے سب سے پہلی کتاب جو اگرچہ تصوف سے متعلق نہیں تھی لیکن اسے فارسی کی دستیاب قدیم ترین نثر شمار کی جاتی ہے وہ ابو یعقوب اسحاق ابن احمد کی لکھی گئی کتاب کشف المحجوب تھی۔ ابو یعقوب نے یہ کتاب اسماعیلی فرقے کی دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں لکھی تھی اور سن 331 ہجری میں انہیں بخارا میں اسماعیلیت کے پاداش میں قتل کردیا گیا تھا۔

فارسی میں تصوف سے متعلق اولین تصنیف ابوبکر کلا آبادی کی کتاب ”التعرف“ کی چارجلدوں پر مشتمل شرح ”شرح التعرف لمذہب التصوف“ ہے۔ یہ کتاب ایک تو تصوف سے متعلق فارسی میں لکھی گئی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کتاب کی مقدمہ میں محقق اور محشی ڈاکٹر محمد روشن نے لکھا ہے کہ اس کتاب کا ایک ایسا نسخہ کتاب کے محقق اور مقدمہ نگار نے خود ملاحظہ کیا ہے جس میں کتاب کا نام بھی ”کشف المحجوب شرح التصوف“ لکھا گیا ہے۔ یہ شرح خواجہ اسماعیل مستملی بخاری نے لکھی ہے جو کہ علی ہجویری کی کشف المحجوب کی تصنیف سے کئی دہائیاں قبل 434 ہجری میں وفات پا گئے تھے۔ اس لحاظ سے علی ہجویری کی کشف المحجوب کو فارسی میں تصوف کی پہلی کتاب گرداننے کا جواز باقی نہیں رہتا بلکہ ممکن ہے کہ علی ہجویری نے اپنی کتاب کا نام کشف المحجوب خواجہ اسماعیل کی کتاب کی نیک شگونی کے طور پر رکھاہو جیسا کہ اس زمانے کا یہ معمول تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2