BBCShe#: بلوچستان کی نڈر خواتین جو خود شناسی کی منزل پا چکی ہیں


جب پاکستان میں ’بی بی سی شی‘ کی مہم شروع کرنے کی منصوبہ بندی ہوئی تو ہمارا مطمع نظر یہی تھا کہ ہم ملک کے دور دراز علاقوں، مختلف نسلوں، لسانی شناختوں اور معاشرتی طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی آوازیں سُننا چاہیں گے جن کی عام طور میڈیا تک رسائی نہیں ہوتی تو بلوچستان قدرتی طور پر ہمارا پہلا پڑاؤ تھا۔

اس صوبے کو پسماندگی کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ہی میڈیا کی نمائندگی نہ ملنے کا شکوہ رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ ہم مقتدر اداروں کی مرضی کے بغیر بلوچستان کے دور دراز علاقوں کا سفر نہیں کر سکتے، اس لیے ہم نے کوئٹہ کی سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کاانتخاب کیا۔

یہ سرکاری یونیورسٹی بلوچستان کی خواتین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ صوبے میں مخلوط تعلیم ابھی بھی اکثریت کے لیے قابل قبول نہیں، ایسے میں یہ درسگاہ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کا خواب پورا کرنے کا موقع دے رہی ہے۔ لیکن ابھی بھی ہزاروں طالبات ایسی ہیں جو صرف مخلوط نظامِ تعلیم میں پڑھنے کی اجازت نہ ملنے کے باعث پڑھائی ترک کرنے پر مجبور ہیں۔

بی بی سی شی سیریز

لیکن ہماری توقع کے مطابق یونیورسٹی نے ہمیں وہ پلیٹ فارم دیا جس کے ذریعے ہماری رسائی خضدار، قلعہ سیف اللہ، ژوب، زیارت اور حتیٰ کہ صوبے کے قبائلی علاقوں سے آئی ہوئی لڑکیوں تک ہو سکی۔ یہ لڑکیاں مختلف لسانی شناخت رکھتی تھیں، ان میں پشتون، بلوچ، ہزارہ اور افغانستان سے آئی پناہ گزین خاندانوں کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔

بی بی سی شی سیریز

یونیورسٹی انتظامیہ نے ہمیں خبردار کیا تھا کہ شاید بہت سی لڑکیاں میڈیا کے سامنے بات کرنے سے گریز کریں اور شاید یہ اتنی با اعتماد نہ ہوں جتنی کہ دوسرے صوبوں کی لڑکیاں ہوتی ہیں لیکن ان لڑکیوں نے سبھی کو حیران کر دیا اور اتنے اعتماد، جرات اور وضاحت سے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا کہ سب ہی کے لیے غیر متوقع تھا یہاں تک کہ ہمیں اپنے مذاکرات کا وقت بڑھانا پڑا، لیکن بات کرنے کی خواہشمند لڑکیوں کے ہاتھ پھر بھی اٹھتے رہے۔

بی بی سی شی سیریز

انھوں نے جنسی تفریق، تعلیم کی کمی، حقوق اور عزت کے سلب کیے جانے، پدر سری نظام، آئینی حقوق سے لاعلمی، فیصلہ سازی اور اظہار کی آزادی تک رسائی نہ ہونے کے مسائل اٹھائے۔

کچھ کہانیاں تو دل ہلا دینے والی تھیں۔ موسیٰ خیل کی ایک طالبہ نے بتایا کہ ان کے علاقے میں عورت کو مرد جیسا کھانا کھانے کا بھی حق نہیں ہے۔ بوٹی مرد اور شوربہ عورت کے حصے میں آتا ہے۔ چائے میں دودھ بھی مرد کو ملتا ہے جبکہ عورت کو قہوے پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لڑکیوں نے بتایا کہ ان کے خاندانوں اور علاقوں میں بیٹے ماؤں پر ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں کیونکہ بچپن سے وہ اپنے باپوں کو ایسا ہی کرتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

بی بی سی شی سیریز

ایک طالبہ نے شکوہ کیا کہ میڈیا بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کی بات نہیں کرتا اور گمشدہ ہونے والوں کی ماؤں، بیویوں، بیٹوں اور بیٹیوں کی کہانیاں نہیں سناتا کیونکہ پاکستان میں میڈیا سینسر شپ کا شکار ہے۔ طالبات نے کم عمری اور زبردستی کی شادیوں، معاشرے کی جانب سے ‘اچھی’ اور ‘بری’ خواتین کے لیے بنائے سانچوں اور اپنی زندگیوں کے فیصلے کرنے کا اختیار نہ ہونے کے بارے میں بات کی۔

بی بی سی شی سیریز

قبائلی علاقوں کی لڑکیوں نے بتایا کہ کس طرح سردار اپنے علاقوں میں خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ خضدار کی ایک طالبہ نے بتایا کہ ان کے علاقے میں مقامی سردار نے لڑکیوں کے پرائمری سکول میں مورچہ بنایا ہوا ہے۔

لڑکیوں نے دقیانوسی رسم و رواج کا ذکر کیا اور کہا کہ بہت سے علاقوں میں خواتین کو موبائل فون رکھنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ موبائل فون رکھنے والی عورت کو ‘لچر’ سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پدر سری معاشرے کا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ خواتین میں استحصال کے خلاف کھڑنے ہونے کی طاقت نہیں ہے جو اس نظام کو چیلنج کرتا ہے اسے ‘بری عورت’ کا خطاب دیا جاتا ہے۔

بی بی سی شی سیریز

اس گفتگو میں تعلیم کا معاملہ بار بار زیر بحث آتا رہا۔ لڑکیوں کا خیال ہے کہ تعلیم ہی مردوں کے ذہن بدل سکتی ہے، عورت کو طاقت دے سکتی ہے اور معاشرے میں تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔

بلوچستان کی عورتوں کی ان تاریک کہانیوں میں امید کی کرن بھی ہے۔ بہت سی طالبات کا کہنا تھا کہ وہ یونیورسٹیوں میں اپنے بھائیوں کی وجہ سے پہنچیں اور کس طرح تعلیم یافتہ بھائیوں نے ان کے حقوق کے لیے خاندانوں اور معاشرے سے ٹکر لی۔

بی بی سی شی سیریز

بی بی سی مستقبل میں اپنی کوریج میں ان کہانیوں اور مسائل کو اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ یونیورسٹی سے واپسی پر میرا تاثر بالکل تبدیل ہو چکا تھا اور مجھے یقین ہو چکا تھا کہ بلوچستان کی نوجوان خواتین خود شناسی کی منزل کو پا چکی ہیں اور وہ اپنی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وہ اپنے معاشرے کے باشعور اور تعلیم یافتہ مردوں کے ہمراہ تبدیلی اور ترقی کی لہر کے ساتھ بدلنا چاہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp