ان سے عثمان بزدار ہضم نہیں ہوگا


الیکشن ہو چکے تھے تحریک انصاف وفاق، کے پی اور پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں اگئی تھی۔ پاکستان میں وزیراعظم سے بھی زیادہ پاورفل پوزیشن والا وزیراعلیٰ پنجاب کو گردانا جاتا ہے۔ لہذا اہم عہدوں کے حصول کے لئے بنی گالہ میں روزانہ ہر گروپ لیڈر اپنے وفاداروں کے ساتھ عمران خان سے ملاقات کر رہا تھا۔

ہر گروپ کے اندر ہر کھلاڑی اپنی طاقت اور اثر و رسوخ سے کپتان کو یہ باور کروانے کو کوشش کروا رہا تھا کہ اس سے زیادہ مضبوط وزیراعلیٰ کا امیدوار ہو ہی نہیں سکتا۔ اس دوران ملاقاتوں میں ایک انہونی ہوئی۔

جنوبی پنجاب کا گروپ کپتان سے ملا تو گروپ لیڈر نے اپنی طاقت موجود کھلاڑیوں سے ظاہر کی اور اپنا اثر و رسوخ بھی دکھایا۔ ہر کھلاڑی نے تقریبا صرف طاقت اور اثر ورسوخ کی ہی باتیں کیں۔ ملاقات جب ختم ہوئی تو دو مہینے پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے ایک بلوچ نے کپتان سے کہا کہ اپک دو منٹ چاہئیں۔

کپتان نے کہا جی بولیے کیا کہنا چاہتے ہو۔ اس پرانے نون لیگی اور موجودہ کھلاڑی نے کہا کہ میرا تعلق تونسہ شریف سے اگے جس علاقے سے ہے اس علاقے میں ہسپتال تک نہیں انسان اور جانور ایک ہی جگہ پانی پیتے ہیں نہ کوئی کالج ہے اور نہ کوئی یونیورسٹی۔ لوگوں کی فلاح کے لئے کچھ کریں۔

یہ وہ لمحہ تھا جب کپتان کو پنجاب کی حکمرانی کے لئے ایک بہترین کھلاڑی مل چکا تھا۔ اس کھلاڑی کو ساتھ بٹھایا گیا اس کا انٹرویو ہوا اور کپتان نے بزدار کو اپنے قریب ترین ساتھی جہانگیر ترین سے ملوایا۔ کپتان کا یہ فیصلہ جہانگیر ترین کے لئے حیران کن تھا۔ بہر حال فیصلہ ہو چکا تھا۔

لیکن پنجابیوں سے پنجاب کا ایک بلوچ ہضم نہیں ہو رہا۔ پنجاب کا سیاستدان ہو، پنجاب کا صحافی ہو یا پھر کوئی اعلی پنجابی افسر، تمام کے تمام کے عثمان بزدار کے خیلاف سازشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سازیشوں میں وہ وہ کہانیاں گھڑی جا رہی ہیں کہ بندہ بغض کے اس اعلی اظہار پر توبہ ہی کرے بس۔

دنیا نیوز کے ایک اینکر جس کا تعلق لاہور سے ہے وہ تو ہاتھ دھو کر عثمان بزدار کے پیچھے پڑے ہیں۔ کبھی قتل کے مقدمے میں گھسیٹا تو کبھی اس کی سادہ طبعیت کا مذاق اڑایا۔ صحافی برادری میں صرف حامد میر ہی ایک صحافی ہے جو تخت لاہور سے جڑے رہنے والے پنجابی صحافیوں کو ہر فورم پر صاف صاف اور سیدھے طریقے سے یہ بتاتا ہے کہ عثمان بزدار پر تنقید صرف بغض اور تعصب ہے اور کچھ نہیں۔

وہ صحافی اور رپورٹرز جن کی شہباز کے دور میں وزیراعلیٰ ہاوس کی طرف دیکھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی وہ رپورٹر اب اسی وزیراعلی ہاوس میں گھس کر وزیراعلی سے بد تمیزی کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ ”سنا ہے اپکو فائل پڑھنا نہیں آتا“۔ شاباش عثمان بزدار پر جو اس صحافتی بدتمیزی کا جواب صرف خاموشی سے دیتا ہے۔ یہ سوال اگر شہباز شریف سے ہوتا تو کم ازکم اسی مائک کے ساتھ منہ بھی توڑ دیتا۔

پچھلے تین مہینے میں ہم نے دیکھا کہ عثمان بزدار کو ڈرامہ کرنا کم ازکم نہیں آتا۔ خاص طور پر وہ ڈرامہ جس کا عادی پنجاب کا پنجابی پچھلے دس سال میں ہو چکا ہے۔

عثمان بزدار کم ازکم ایک ساتھ 10 مائیکس نہیں گرا سکتا لیکن ہاں 300 ارب روپے کی زمین صرف 2 مہینے میں واگزار کروا سکتا ہے۔ لمبے لمبے بوٹ نہیں پہن سکتا لیکن بے گھروں کے لئے پانچ بہترین رہائش گاہیں تعمیر کروانے کا پلان ضرور بنا سکتا ہے۔ بزدار نے تونسہ شریف کو سرکاری رہائش گاہ میں تبدیل کر کے اس پر 2 ارب خرچ تو نہیں کیے لیکن وزیر اعلی ہاوس لاہور کو تمام لوگوں کے لئے کھول دیا۔ بزدار نے میڈیا ہاوسیز کو اشتہارات تو نہیں دیے لیکن جنوبی پنجاب کے شہر ڈی جی خان میں پہلی ٹیکنیکل یونیورسٹی کا پلان ضرور بنا لیا ہے۔

آپ کو عثمان بزدار سے بغض تو انتہا کا ہو سکتا ہے لیکن کپتان کی اس بات میں دم ہے کہ عثمان بزدار میرا وسیم اکرم ثابت ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).