تین بار تاج محل بیچ ڈالنے والا ٹھگ مسٹر نٹور لعل


متھلیش کمارانڈیا کی ریاست بہار کے ضلع سیوان کے ایک گاؤں بانگڑہ میں 1912 میں پیدا ہوا۔ متھلیش کے والد ریلوے میں ایک چھوٹے ملازم تھے اور خود پیشے کے اعتبارسے وکیل تھا۔ پڑھنے کے حوالے سے کوئی بہت لائق بچہ نہیں تھا اس کا زیادہ وقت فٹ بال اور شترنج کھیلنے میں نکلتا تھا۔ جب وکالت سے اس کا کچھ نہ بنا تو اس نے وکالت چھوڑ کر ایک نیا کام شروع کیا تھا وہ تھا لوگوں کو ٹھگنے کا کام۔ وہ بھارت کا سب سے مشہور ٹھگ بن گیا تھا اس کے ٹھگنے کے انداز ایسے تھے کہ جیسے آپ کسی ناول میں پڑھ رہے ہوں لوگوں کو کروڑوں کا چونا لگانے والا کہتا تھاکہ میرا کیا قصور ہے کہ میں تو جھوٹ بول کر پیسے ٹھگتا ہوں لوگ خود ہی پیسے دے دیتے ہیں۔

وہ ایک ایسا شاطر انسان تھا جس نے بھارت کی سب سے مشہور بلڈنگز کو بیچ دیا۔ تین بار تاج محل، دو بار لال قلعہ، راشٹرپتی بھون، سنست بھون اور اس میں موجود 545 ممبرز کے ساتھ بیچ دیا۔ متھلیش بھیس بدلنے کا ماہر انسان تھا ایک دفعہ اس نے انڈیا کے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کا بھیس بدل کرلوگوں کو ٹھگ لیا تھا۔ جعلی ڈگری بنوا کر وہ ایک گورنمنٹ سکول میں پرنسپل بن گیا وہاں موجود بچوں کے بارے میں معلومات لے کر ان کے گھر والوں سے لاکھوں روپے بٹور لیے تھے۔

بھارت کے سب سے بڑے بزنس مین دھیروبھائی انبانی، ٹاٹا، برلا اور بہت سے بڑے سرکاری اہلکاروں کو بھی نہیں بخشا گیا وہ بھی اچھی خاصی رقم لُٹوا چکے تھے۔ نٹورلال کہتاتھا کہ مجھے موقع دیں تو میں لوگوں کو لوٹ کر پورے ملک کا قرضہ اُتار دوں گا۔ نٹورلال اس کے بارہ ناموں میں سے ایک نام تھا 8 ریاستوں میں 100 سے زیادہ کیس تھے جس پر اس کو 113 سال کی سزاسنائی گئی تھی۔ اپنی پوری زندگی میں 9 دفعہ گرفتار ہوا وہ ہر دفعہ پولیس کو چکمہ دے کر بھاگ جاتا تھا۔

اب تک کی کہانی انڈین نٹور لال کی تھی اور پاکستانی سر زمین تو ماشاء اللہ ایسے ٹھگوں سے بھری پڑی ہے۔ صباء میسج والی والی ہو۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر ہو۔ جیتو پاکستان کے نام پر اتنے پیسے اکٹھے کیے گئے ہیں کہ مسٹر نٹور لال دو دفعہ مر کر پھر جی آئے تو بھی اتنے پیسے اکٹھے نہیں کر سکے گا۔ ان ٹھگوں کے علاوہ کچھ اور طریقے کے ٹھگ ہیں جنہوں نے ریلوے بیچ دی، پی آئی اے سٹیل مل سمیت ملک کی بہت سی چیزوں کو بیچنے کے درپے تھے لیکن اس پر کسی اور دفعہ لب کشائی کروں گا۔

سرائیکی زبان کی ایک کہاوت ہے : جے تک لالچی جیندے ٹھگی بھک نہیں مردا۔ جب تک لالچی زندہ ہے ٹھگ بھوکا نہیں مرے گا۔ ایک دوست ایک کہانی سنا رہا تھا کہ بے نظیر انکم سپورٹ کے نام پر لوگوں کو 10 ہزار لے لے کر ان کی زمین ہی اپنے نام کروا لی لاکھوں کی زمین 10 ہزار پر ہی دے بیٹھے۔ 30 ہزار کے انعام کی لالچ دے کر 5 سے 10 ہزار کا چونا تو بہت سے لوگوں کو لگ چکا ہے پاکستان کے نامور صحافی روف کلاسرہ صاحب ایک دفعہ لکھتے ہیں کہ ایف آئی اے کے سربراہ تک کو یہ پیغامات موصول ہو چکے ہوتے ہیں۔

لیکن آخر میں اس پر ایکشن کیا لیا گیا کتنے لوگوں کو پکڑا گیا؟ کتنوں کو سزائیں ملیں؟ اب تک ہر سم بائیومیٹرک ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود کچھ ٹھگ دیہاتی علاقوں میں سم بیچنے کے بہانے جاتے ہیں اور کسی بھی سادہ لوح شخص کو ایک سم بیچ کر باقی ایک دو اور سمز اس انسان کے نام پر بائیومیٹرک کے ذریعے رجسٹر کرکے آتے ہیں پھر ان سمز کو چاہیے کسی کو لوٹنے کے لیے استعمال کیا جائے یا جو مرضی؟ اب ایک اور جدید طریقہ لوٹنے کا آگیا ہے جس کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو لوٹا جا چکا ہے وہ ہے بنک کا ڈیٹا چوری کرکے اور فیک کال کرکے ان کی خفیہ معلومات حاصل کر لی جاتی ہیں جس کی مدد سے ایک ایک دن میں لاکھوں کی چوری آرام سے کر لی جاتی ہے۔

کیا ہمارے ادارے سو رہے ہیں؟ کوئی لوگوں میں اس حوالے سے شعور اجاگر نہیں کیا جا رہا؟ تمام بنک اپنے کسٹمرز کے اکاؤنٹس کو بائیومیٹرک نہیں کروا دیتے آن لائن سیل اور پرچیز کے لیے کوئی مضبوط طریقہ کار نہیں بنا دیتے اور خصوصا ایسے گروہ جو ایسے کام کر رہے ہیں ان کے گرد گھیرہ تنگ نہیں کیا جاتا تب تک لوگ لٹتے رہیں گے اور ہم دیکھتے رہیں گے۔ ایک آٹی ایکسپرٹ اریب امتار چوہدری کا کہنا ہے کہ تمام بنکس کو اپنے کسٹمرز کے اکاؤنٹ کو OTP (One Time Pin) کے ساتھ جوڑ دینا چاہیے جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کوئی بھی ٹرانزکشن ہو گی وہ پن کسٹمر کے رجسٹرڈ موبائل نمبر پر آ جائے گاجس سے مزید پراسس آگے بڑھ سکے گا۔

ہمارے اداروں کے سائبر ونگز کو اس پر مزید ایکٹو رول ادا کرنا ہوگا ہر اداروں میں موجود آئی ٹی کے ایسے نوجوان اُٹھا کر لانے ہوں گے جو کچھ نئے طریقے سے سوچتے ہوں جیسے آپ نے دیکھا ہوگا کہ کرکٹ ہنٹ پروگرام شروع کیے جاتے ہیں اس طرح کے آئی ٹی کے پروگرامز شروع کیے جائیں جس میں آئی ٹی یونیورسٹیز میں جاکر ایسے نوجوانوں کو چنا جائے اور وطن کو سائبر حملوں سے بچا سکیں۔ جو لوگ ایسے کاموں میں ملوث ہیں ان کو سزا دلوائی جائے تاکہ کوئی ایسے کام کا سوچ بھی نہ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).