دبئی میں چند روز


گذشتہ 10 برس کے دوران متحدہ عرب امارات میں جس قدر ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ شاید ہی کوئی ایسا بزنس مین ہو جو بذریعہ دبئی امپورٹ ایکسپورٹ نہ کرتا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دبئی فری پورٹ ہے۔ وہاں کوئی بھی چیز مخصوص فیس ادا کر کے منگوائی یا بھجوائی جا سکتی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک نے وہاں اپنے دفاتر کھول رکھے ہیں۔ روپے پیسے کی فراوانی کے باعث وہاں عیاشی کے مراکز بڑی تعداد میں کھل چکے ہیں۔ جسم فروشی وہاں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ درہم کمانے کا سب سے آسان ذریعہ ہے۔

کئی پاکستانی ادکارائیں اور گلوکارائیں وہاں سکونت پذیر ہیں اور سال میں کئی مرتبہ پاکستان میں نئے چہروں کی تلاش کے لئے آتی ہیں۔ وہاں دنیا کی حسین سے حسین عورت موجود ہے۔ نائٹ کلب میں داخل ہونے کے بعد انسان مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ جیسے کسی ماہر سنگتراش نے نہایت شاندار مجسّمے تراش کر سجا دیے ہوں۔ عورت کس قدر خوبصورت ہو سکتی ہے اس کا اندازہ دبئی جا کر ہوا۔ میرا وہاں قیام 3 دن کے لئے تھا اور بطور صحافی ایک وفد میں شامل تھا۔

پہلے دن تو بہت مصروفیت رہی لیکن شام کو وہاں موجود ایک دوست گھمانے کے لئے ہوٹلوں اور نائٹ کلبوں میں لے گیا۔ جدھر دیکھیں فلپائنی ’مصری‘ یورپ اور امریکہ کے علاوہ ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والی ہادو گرنیاں اپنے حسن کا جال پھیلائے بیٹھی تھیں۔ اگلے روز ایک دوست کے ہاں ڈنر تھا۔ وہاں ہم چھ سات دوست موجود تھے۔ رات کافی گزر چکی تھی۔ میرا دوست بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس کی بے چینی کا سبب دریافت کیا تو وہ بولا تم یہاں قیام کر لو کیونکہ ہم سب نے شراب پی رکھی ہے۔

اس وقت ڈرائیو کرتے ہوئے باہر گئے تو ممکن ہے کہیں کوئی حادثہ ہو جائے۔ مجھے کیا اعتراض تھا کیونکہ ہمارا قیام ایک سرکاری رہائش گاہ پر تھا۔ چنانچہ میں نے وہاں اطلاع کر دی۔ رات کے ایک بجے ایک دوست باقی تین کو لے کر چلا گیا اور ہم فلیٹ میں دو لوگ باقی رہ گئے۔ کمرے میں اے سی اپنی پوری رفتار سے چل رہا تھا۔ سخت گرمی کے باوجود ہم کمبل اوڑھے بیٹھے تھے کہ نیچے کسی نے ہارن دیا۔ وہ اچھل کر باہر گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد اس کے ساتھ ایک فلپائنی لڑکی اور ایک انڈین لڑکی موجود تھی۔ میرے دوست ( جس کا نام اس کا بھرم رکھنے کے لئے عابد لکھ رہا ہوں ) نے کسی قسم کا تکلف نہ کرتے ہوئے کہا کہ ”استاد! کون سی چلے گی۔ “

میں ہکا بکا رہ گیا۔ اور اب مجھے سمجھ آیا کہ وہ باقی لوگوں کو وہاں سے نکالنے کے لئے کیوں بے چین تھا۔
” کوئی بھی نہیں چلے گی۔ “ میں نے کہا۔

اس نے فلپائنی کا بازو پکڑا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا اور جاتے ہوئے بولا اگر جی نہ چاہے تو اس واپس بھیج دینا۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی دیتا اس نے کمرہ لاک کر لیا۔ اب اور وہ انڈین لڑکی تنہا رہ گئے۔ وہ ابھی تک کھڑی تھی۔

” تشریف رکھیں۔ “ میں نے آسمان کی طرف مدد طلب کرنے کے انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔
” شکریہ“ وہ بیٹھ گئی۔

میں ٹھنڈ ک کے باوجود پسینے کے قطرے ماتھے پر محسوس کر رہا تھا۔ اس نے بھی میری حالت کا اندازہ کر لیا۔ پہلے تو وہ خاموش نظروں سے میری طرف دیکھتی رہی اور پھر بولی ”میں رات گئے اکیلی واپس نہیں جا سکوں گی۔ “

” تمہارا نام۔ “
”فائزہ۔ “

” فائزہ؟ کیا مسلمان ہو؟ “ میں نے حیرت سے پوچھا۔
” جی“

” کب سے دبئی ہو۔ “
” آج تیسرا دن ہے۔ “

” کہاں کی رہنے والی ہو؟ “
” کلکتہ کی۔ “

” والدین زندہ ہیں۔ “
” جی دونوں حیات ہیں۔ “

” ان کے علم میں ہے کہ تم یہاں یہ سب کچھ کر رہی ہو؟ “
” آپ میری ذاتی زندگی میں دلچسپی کیو ں لے رہے ہیں۔ میں آج کی شب گزارنے کے لئے بک کی گئی ہوں۔ “

” مجھے تمہارے جسم سے کوئی غرض نہیں، تمہیں رقم ادا کر دی گئی ہو گی۔ آرام سے یہاں سٹے کرو۔ تمہیں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ “
” آپ یہاں کب سے قیام پذیر ہیں۔ “ اس نے پوچھا
” آپ کی نسبت جونیر ہوں۔ مجھے ابھی 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے۔ “

وہ ہنس دی۔ اس نے پتلون شرٹ پہن رکھی تھی۔ چہرے کی رنگت سانولی تھی لیکن میک اپ نے خاصا بہتر کر دیا تھا۔ اس کے ہنسنے کا انداز نہایت دلفریب تھا۔

” یہاں آتے ہی میرا ایڈز ٹسٹ ہوا تھا، آپ فکر نہ کریں۔ “ وہ ہنس کر بولی۔
” میں ایڈز سے نہیں خدا سے ڈرتا ہوں۔ “

وہ میری بات سن کر ایک لمحے کے لئے ششدر رہ گئی۔ لگتا تھا کہ میری بات کا اس کے دل و دماغ پر بہت سخت اثر ہوا ہے۔
” مجھے میرے حالات یہاں تک لے آئے ہیں۔ میں اپنے خاندان کی واحد کفیل ہوں۔ کلکتہ میں بھی ملازمت کے علاوہ یہی کچھ کرنا پڑتا تھا۔ بس اب فائدہ یہ ہو گا کہ جو رقم مہینے میں ملتی تھی وہ اب ہفتے میں مل جایا کرے گی۔ “

” خدا نے تمہاری قسمت میں جو لکھا ہے میں اسے تبدیل تو نہیں کر سکتا۔ لیکن ایک مسلمان لڑکی سے کم از کم جسم ٹچ نہیں ہو گا۔ “

” اگر میں ہندو ہوتی تو؟ “
” تو بھی میرا رویہ یہی ہوتا۔ “
” مثلا۔ “ وہ سنجیدگی سے میری آنکھوں میں دیکھتی ہو ئے بولی۔

فائزہ نے جوتے اتار لئے اور ٹانگیں پھیلا کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ پھر وہ اٹھی۔ اس کے اٹیچی میں نائٹ ڈریس موجود تھا جسے وہ باتھ روم جا کر تبدیل کر آئی۔ اب وہ بنگال کی جادوگرنی لگ رہی تھی۔ میرا دل بے ایمان ہو رہا تھا۔ اس لئے شیطان سے بچنے کے لئے میں نے کہا : ”نماز پڑھتی ہو؟ “

” نہیں۔ “
” کیوں؟ “
” وقت نہیں، ملتا۔ “

” چلو سمجھ لو کہ اس وقت تمہارے پاس وقت ہے۔ جاؤ نماز پڑھو اور قرآن پاک کی تلاوت کرو۔ “
وہ حیران و پریشان ہو کر میری دیکھنے لگی۔

” مجھے آپ اس طرح ذلیل نہ کریں۔ میں یہ سب کچھ انتہائی مجبوری میں کر رہی ہوں۔ اگر آپ نے واقعی انجوائے نہیں کرنا تو مجھے اجازت دیں میں سو جاؤں کیونکہ میں کل رات سے جاگ رہی ہوں اور صبح سے اس وقت تک چار مختلف مقامات پر جا چکی ہوں!
” سو جاؤ۔ “ میں نے کہا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا کیونکہ کمرے میں کوئی فالتو کمبل موجود نہ تھا۔ میں نے مختلف الماریو ں کا جائزہ لیا اور پھر ساتھ والے کمرے میں چلا گیا۔ وہاں بستر موجود تھا۔

میں نے اے سی چلا دیا اور اسے کہا کہ وہاں جا کر سو جائے۔ وہ شکریہ کہہ کر چلی گئی۔ میں اس کے جاتے ہی خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ یہ بہت بڑی آزمائش تھی۔ ایسا نہ تھا کہ میری دل پر شیطان نے وار نہ کیے تھے۔ میں کسی لمحے بھی بہک سکتا تھا لیکن میرے خدا کی مدد شامل حال رہی اور میں ہمیشہ کی طرح اس کے کرم کی وجہ سے اس دفعہ بھی بچ نکلا۔

مجھے نہیں معلوم کب میری آنکھ لگی۔ بس انتا یاد ہے کہ آنکھ کھلی تو میں بستر پر تنہا نہ تھا۔ فائزہ رات کے کسی حصے میں اپنا کمبل لے کر ڈبل بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ وہ نہایت گہری نیند سو رہی تھی۔ اس کے سرہانے ایک کاغذ پڑا تھا جس پر لکھا تھا کہ ”ڈئیر دوست! مجھے ڈر لگ رہا تھا اس لئے یہاں سو رہی ہوں۔ آنکھ کھل جائے تو پریشان نہیں ہونا۔ مجھے آپ کی شرافت نے متاثر کیا لیکن میں جسم فروشی نہیں چھوڑ سکتی۔ اگر زحمت نہ ہو تو صبح جلدی نہ اٹھائیے گا کیونکہ میں آپ کے پاس صبح 10 بجے تک سٹے کرنے کے لئے بک کی گئی ہوں۔ “

میں نے فائزہ کا لکھا ہوا پیغام پڑھا اور اسے جیب میں ڈال لیا۔ ساتھ والے کمرے کا بستر خالی تھا اور اے سی چل رہا تھا خاموشی کے ساتھ وہاں چلا گیا۔ صبح اٹھا تو فلپائنی اور فائزہ دونوں سو رہی تھیں اور ان کے درمیان لیٹا عابد بھی خراٹے بھر رہا تھا۔

دبئی میں قیام کے دوران پتہ چلا کہ یہاں پاکستانی طوائفیں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور زیادہ تر نے فیشن ایبل علاقوں میں فلیٹ حاصل کر رکھے ہیں۔ یہ طوائفیں ایک ماہ میں اتنی کمائی کر لیتی ہیں جتنی انہیں پاکستان میں ایک سال آمدن حاصل نہیں ہو سکتی اور تحفظ وہاں الگ ہوتا ہے۔
کتاب ”عورت اور بازار“ سے اقتباس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).