توہین اور رسالت


توہین رسالت۔ ہوئی یا نہیں۔ گواہ نے گواہی دی یا مُکر گیا۔ تمام گواہ حاضر نہیں ہوئے۔ بیانات میں تضاد تھا کہ نہیں۔ ملزم سزا پائے گا کہ نہیں۔ قانونی معاملات قانون دان اور عدلیہ کے درمیان ہیں اور وہی اس کا فیصلہ بہتر کرسکتے ہیں۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی توہین ہوئی ہے یا نہیں۔ توہین کرنے والا کون ہے۔ اس نے ایسا کیوں کیا۔ کسی عارضی مفاد کے لیے کیا یا مذہبی جذبات کے بار تلے۔ ہمارے ہاں بہت سے پکے مسلمان کینیڈا اور دیگر ممالک میں شہریت حاصل کرنے کے خود ہی خود پر توہین رسالت کے پرچے کرواتے ہیں۔ چند ڈالروں کی خاطر ایمان بیچ دیتے ہیں۔

آج کی اس مادہ پرست دُنیا میں۔ جہاں ملحد تو دُور کی بات اچھے خاصے خدا پرست لوگ بھی لبرلزم اور سیکولرزم کا کمبل اوڑھنے کے چکر میں خدا کے وجود کی بابت تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور اس سوچ میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ ایمان بڑی چیز ہے یا جان۔ انسان دُنیا میں بیشتر کام اپنی جان کی تسکین اور آرام کے لیے کرتا ہے۔ قتل و غارت، ڈکیتی چوری، محنت مزدوری سب کچھ راحتِ جان کے لیے مگر جہاں ایمان کی بات آجائے جان نچھاور کر دیتا ہے سوچتا ہی نہیں۔

جس جان کو عمر بھر بچا بچا کر رکھا جاتا ہے۔ اس کی سردگرم، موسم اور حالات میں حفاظت کی جاتی ہے۔ پالا پوسہ جاتا ہے۔ سنبھال سنبھال کر رکھا جاتا ہے آنِ واحد میں۔ تعلیم یافتہ یا اَن پڑھ۔ امیر یا غریب۔ تندرست یا بیمار۔ لاغر یا تنومند۔ بلاجھجک اور ہچکچاہٹ جان قربان کر دیتا ہے۔ عجیب چیز ہے انسان پوری کائنات جان پر اور جان ایمان پر آنِ واحد میں قربان کر دیتا ہے۔

حفاظتِ قرآن اعجازِ قرآن ہے۔ جس طرح حفاظتِ قرآن کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ اسی طرح حفاظتِ حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ۔ جس کا نام اللہ بلند کرے کائنات کی کوئی مخلوق اس کو نعوذ باللہ نیچا کیسے دِکھا سکتی ہے۔ جس پر کائنات کی مخلوقات اور خالقِ کائنات درود بھیجیں اس پر سلامتی ہے۔ وہ نور چمکتا ہی رہے گا۔ وہ کسی بدبخت، بدنصیب اور رذیل و ذلیل کے چند لفظوں کا محتاج تھوڑی ہے۔

تَبَّتْ یَدَآ أَبِی لَہَبِ وَتَبَّ۔ ہاتھ ابولہب کے ٹوٹے ہیں اور ٹوٹتے رہیں۔ إِنَّ شانِئَکَ ہُوَ الأَبتَرُ۔ اور گستاخ ہی بے نام و نشان ہوں گے۔ ان کی اولادیں۔ ان کے خاندان تباہ ہوں گے۔ جس کا نام و نشان خدا مٹائے بھلا اس کو کون زندگی دے سکتا ہے۔ اور جس کو اللہ دوام دے۔ عروج دے۔ سلام دے۔ انعام دے۔ وہ ہمیشہ سے ہمیشہ تک رہے گا۔ اِس لیے تباہی ہے گستاخ کے لیے، اُس کی آل کے لیے، اُس کے خاندان کے لیے۔ اُس کے نطفہ کے لیے۔ اور ہمیشہ تک رہے گی۔ اور سلامتی ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے۔ اُس کی آل کے لیے۔ اُس کی اولاد کے لیے اور اُس کے سچے پیروکار کے لیے۔ اور اَبد تک رہے گی۔

توہین رسالت کرنے والے کو دُنیاوی قانون، عدالتیں، تھانے اور کچہری میں سزا دی جاتی ہے۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا جاتا ہے۔ کہیں ملزم دراصل مجرم ہوتا ہے مگر ناکافی شہادتوں۔ قانونی سقم اور پیچیدگیوں کی وجہ سے رہا ہو جاتا ہے اور بعض اوقات ملزم دراصل ہمارے معاشرتی رویوں۔ عدم برداشت، مذہبی منافرت یا ذاتی رنجشوں کی بناء پر توہین رسالت کا مجرم قرار پاتا ہے۔ دُنیاوی قوانین۔ جسم پر لاگو ہوتے ہیں۔ دُنیاوی قوانین میں دھوکہ، فریب، اچھی فیس کے ساتھ مہنگا وکیل، اعلیٰ عہدیدار، غیر ملکی ایجنڈہ، ذاتی یا ملکی مفاد جسم کو بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بظاہر عارضی بچت پر انسان خوش ہوتا ہے۔ شادیانے بجاتا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ فکر داد کے ڈونگرے برساتا ہے۔ کامیابی کے نقّارے بجتے ہیں۔ مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں۔ ڈھول تاشے بجتے ہیں۔ گھی کے چراغ جلتے ہیں اور توہین رسالت کے بعد بھی۔ باعزت بچ نکلنے پر جشن منایا جاتا ہے۔

توہینِ رسالت کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ جسم کو قید و بند کی صعوبتوں سے بظاہر بچا لینے والا۔ بچ نہیں پاتا۔ اس کا جسم جلتا رہتا ہے۔ اس کو اندر سے کوئی چیز کاٹ رہی ہوتی ہے۔ کوئی کالا ناگ۔ اس کے جسم کے اندر چپکے سے داخل ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ اپنے زہر کو مسلسل اس کے دماغ میں منتقل کرتا رہتا ہے۔ ڈنگ مارتا رہتا ہے۔ بے شمار بھورے۔ کالے بچھو سوتے میں اور کھلی آنکھوں۔ اس کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں۔

اس کی ناک کے نتھنوں کے راستے۔ کانوں کے راستے۔ منہ کے راستے۔ اس کے جسم داخل ہوتے جاتے ہیں۔ وہ بے بسی سے ادھر اُدھر سر مارتا ہے۔ جھٹکتا ہے۔ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ جسم میں سے اتار اتار کر ان کو پھینکتا ہے۔ مگر بے بس ہو جاتا ہے۔ سانس پھول جاتی ہے۔ ہاتھ کانپتے ہیں۔ جسم میں نقاہت آجاتی ہے۔ پسینہ روم روم سے بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہوش میں آتا ہے ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ کچھ بھی تو نہیں۔ ٹھنڈی سانس۔ لمبی سانس لیتا ہے۔ ”شکر ہے“۔ پھر اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ جس کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی۔ تھوڑی دیر بعد پھر دورہ پڑتا ہے۔ پہلے سے زیادہ شدت۔ تکلیف مزید شدید ہو جاتی ہے۔ چہرہ سیاہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik