وہ کوئی اور ہی دنیا تھی شائد


اگرچہ ہم اتنے پرانے ہرگز نہی جتنی پرانی باتیں آج آپ کو بتانے جا رہے ہیں، لیکن ان میں سے کچھ باتوں کے ہم بھی عینی شاہد ضرور ہیں۔ کچھ زیادہ دیر نہی گزری۔ بس تیس پینتیس سال ادھر کی کچھ باتیں، یادیں اور نظارے جو اب تک یاد ہیں۔ ہمارے گاؤں، دیہات، اور قصبات اس عرصہ میں بہت بدل گئے ہیں۔ اس وقت ہمارے گاؤں بنیادی ضروریات زندگی میں تقریباً خود کفیل ہوتے تھے۔ اکثریتی آبادی زراعت پیشہ یا ان کے معاون پیشوں سے منسلک ہوتی تھی۔

ایک مثل مشہور تھی کہ جٹ یعنی کسان کو صرف نمک خریدنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ ہر چیز وہ خود پیدا کرتا ہے۔ یہی حقیقت بھی تھی۔ نہری اور بارشی پانی کے علاوہ کھیتی سیراب کرنے کے لئے رہٹ موجود تھے، جن پر پانی کی کھینچائی کے لئے بیل جوتے جاتے تھے۔ ہل وغیرہ بھی بیلوں کے ذریعے ہی چلائے جاتے تھے۔ کسانوں کوڈیزل پیٹرول نہی خریدنا پڑتا تھا۔ فصل کے بیج ہر کسان سال بھر سنبھال کر رکھتا تھا اور کھاد کی جگہ جانوروں کا سال بھر کا اکٹھا کیا ہوا گوبر استعمال ہوتا تھا۔

عام لین دین میں پیسے کا استعمال بہت کم تھا۔ انہیں فصلوں میں سے گندم، جو، مکئی اور جوار کا آٹا بنتا، غلہ پیسنے والی چکی اول تو گھروں میں لگی ہوتی تھی، نہی تو چکی والا اسی آٹے میں سے معاوضے کے طور پر کچھ رکھ لیتا تھا۔ باقی غلہ کسان کے دیگر لینے دینے کے معاملات میں کام آتا تھا۔ بعد میں یہ اجناس بیوپاری کسان کے دروازے سے تول کر اٹھا لے جاتے تھے، اور پیسہ انہی کے پاس جمع رہتا تھا۔ کسان پیسہ گھر لے جانے سے کتراتے تھے، جب ضرورت ہوتی اسی قدر پیسہ بیوپاری سے لے آئے، باقی جمع رہنے دیا۔

اس وقت کی یہی بینکاری تھی۔ کپاس چنائی ہو کر گھر آتی تو اعلیٰ معیار کی الگ کر کے سکھا لی جاتی کچھ رضائیاں بھرنے کے کام آتی اور باقی سے بنولہ الگ کر کے گھروں میں چرخے پر سوت کات لیا جاتا تھا۔ یہی سوت بافندے اٹھا کر لے جاتے اور اس سے کپڑا اور لحاف وغیرہ بنا کر لے آتے۔ یہی کپڑے عام طور پر سارا سال استعمال ہوتے تھے۔ ریشمی کپڑے شادیوں وغیرہ پر شہر سے آتے تھے۔ گنے سے گڑ شکر اور دیسی کھانڈ (چینی) وہی پر ہی بنا لی جاتی تھی۔

اور سارا سال وہی استعمال ہوتی تھی۔ بہت سال بعد گنے کی ملوں کی سفید چینی گاؤں پہنچنے لگی، لیکن مجھے اچھی طرح سے یاد ہے، اس چینی کی راشن بندی ہوتی تھی اور ڈپو سے ہر خاندان کو دو یا تین کلو ماہانہ کے حساب سے ہی ملتی تھی۔ جو کہ سوتی کپڑے کی کندوریوں میں باندھ کر لوہے اور لکڑی کے صندوقوں میں رکھی جاتی تھی اور مہینے کے اختتام پر بھی ایک آدھ کلو بچ جاتی تھی۔ مال مویشی ہر امیر غریب کے پاس ہوتے تھے۔ اکثر زمیندار کٹے بچھڑے بیچنا عیب خیال کرتے تھے، ان کو سال دو سال کا ہونے پر اللہ کے راستے میں قربان کر دیتے تھے۔

اور کھال گاؤں کا موچی اٹھا لے جاتا تھا۔ یہ چمڑا وہ خود گاؤں میں ہی سکھاتے اور رنگتے تھے۔ ان کے اس کام کے لئے کنالیں گاؤں سے باہر بنی ہوتی تھیں۔ گھر کے ہر چھوٹے بڑے کے لئے سال میں ایک جوڑی نئے جوتے کی فراہمی اور پرانے جوتوں کی مرمت موچی کی ذمہ داری تھی۔ ترکھان لکڑی سے متعلقہ سب کاموں کے ذمہ دار تھے، جن میں اس وقت کا واحد فرنیچر چارپائی اور موڑھا، زرعی آلات ہل پنجالی، جانوروں کی کھرلیاں، کھونٹے۔

اور شادی غمی کے موقع پر ایندھن کے لئے لکڑیاں تیار کرنا شامل تھا۔ تقریباً سبھی گھر کچے ہوتے تھے۔ جس نوجوان کی شادی کرنا ہوتی تھی۔ صحن کے کسی کونے میں ایک نیا کمرہ بنا دیا جاتا لو جی گھر تیار ہو گیا۔ شادی کے بعد نیا جوڑا اسی ایک کمرے پر مشتمل گھر میں خوش رہتا تھا۔ صحن کے کسی کونے میں ہی پانی کا ایک نلکا ہوتا تھا جس سے سب اپنی پانی کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ غسل خانوں اور بیت الخلا کا کوئی تصور نہی تھا۔

سب کھیتوں میں چلے جاتے تھے۔ جنہیں غسل کی حاجت ہوتی وہ تہجد سے پہلے ہی اپنی ضرورت پوری کر کے بستروں میں جا دبکتے تھے۔ جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا گاؤں کی زندگی کا سب سے پکا معمول تھا۔ بعد میں خود بھٹیاں لگا کر کچھ زمین داروں نے پکی اینٹوں کے گھروندے کھڑے کر لئے، لیکن ان کی چھتیں کچی ہی ہوتی تھیں۔ کمہار سارا سال ان گھروں کی لپائی اور مرمت پر مامور رہتے، نیز قبروں کی تیاری اور سال بعد ان کی لپائی بھی انہی کے ذمے ہوتی تھی۔

لوہار زرعی آلات کے پھالے۔ کسی، کدال، درانتیاں اور چھریاں، کلہاڑیاں وغیرہ بناتے اور جانور باندھنے کی زنجیریں بنانے اور ان کی مرمت میں جتے رہتے تھے۔ نائی اس دیہی معاشرے میں سب سے کار آمد پرزہ تھا۔ سب چھوٹے بڑوں کے بال کاٹنے، حجامت بنانے کے علاوہ شادیوں کے دعوت نامے اور فوتیدگیوں کی اطلاع کرنا اسی کے ذمہ تھا۔ سارے گاؤں کی خبریں بھی اسی کے پاس ہوتی تھیں۔ گاؤں کے مولوی صاحب کا اپنا مقام تھا۔ شادی اور فوتیدگی پر اسے مہمان خصوصی کا درجہ حاصل تھا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان مواقع کے رسوم و رواج اور لوازمات پورے کرنا محال تھا۔

یہ سب مزدور پیشہ سال کے سال گندم کی فصل کی آمد پر غلہ کی صورت میں اپنی اجرت پاتے تھے۔ یہ سب سارا سال کڑی محنت کرتے اور اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کماتے تھے۔ ان میں سے صرف ایک پیشہ ایسا تھا کہ جس سے وابستہ افراد جسمانی مشقت سے سخت گھبراتے تھے۔ وہ تھے گاؤں کے میراثی، جو کہ لوگوں کے شجرہ نسب سنبھال کر رکھتے۔ شادیوں اور دیگر مواقع پر ڈھول پیٹتے اور جگتیں وغیرہ سنا کر لوگوں کو محظوظ کرتے، بدلے میں ویلیں (نقد انعام واکرام پاتے تھے۔

افسوس کہ دیہاتی معاشرے کی نسل در نسل اس مضبوط بنت (معاشرتی اکائیوں کا تال میل۔ بنائی) کو بعد میں صرف ایک نفرت انگیز جملہ ”کمی کمین“ کھاتا گیا۔ ان محنت کشوں اور ہنر مندوں کو حقارت سے کمی پکارا جاتا اور دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا۔ دراصل ہزاروں سال ہندو معاشرت کا حصہ رہنے کی وجہ سے ان کا برہمن اور شودر والا نظام رویوں کی صورت میں کسی نہ کسی شکل ہمارے معاشروں میں قائم رہا۔ اور اسی منفی رویے کی وجہ سے ہمارے گاؤں دیہات کے یہ اعلیٰ درجے کے ہنر مند اپنے آبائی پیشوں کو خیر باد کہہ کر شہروں میں جا بسے۔

اور ہمارے دیہات ہنر سے بانجھ ہوتے چلے گئے ان سب کے علاوہ دیگر چھوٹے چھوٹے پیشے جیسا کہ کپڑے رنگنا۔ چارپائیوں کے لئے بان بنانا، جانوروں کے سینگھ اور کھر درست کرنے والے، ماشکی، ساربان (اونٹ اور گدھوں کے ذریعے سے باربرداری کرنے والے ) چھوٹی موٹی حکمت اور پنسار و کریانہ کی دکانداری الگ سے تھی۔ دکاندار کے پاس انتہائی مجبوری میں جاتے تھے۔ اگر کسی نے ماچس صابن وغیرہ لینا ہوتا تو تھوڑی سی گندم اٹھائی اور دکان سے سودا سلف لے آئے۔

دکانوں پر اس وقت اہم سودے بیڑی سیل، مٹی کا تیل، دیے، لالٹینیں اور ان کی چمنیاں، صابن، سلائی کڑھائی کی سوئیاں، چائے کی پتی، نمک، سوکھا ناریل، چھوہارے، مکھانے، ریوڑیاں، مرنڈے، گرم مصالحے اور مصری وغیرہ ہوتے تھے۔ سبزی وغیرہ ہر کوئی اپنی اگاتا تھا۔ پہلے پہل سوڈا واٹر کی بوتلیں دکانوں پر آئیں تو حکیم کے بتانے پر ہی کوئی دوا کے طور پر ایک آدھ بوتل لے جاتا تھا۔ دودھ بیچنے کا کوئی تصور نہی تھا۔ صبح سویرے نماز پڑھ کر مدھانی پر دہی بلو لی جاتی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2