وہ دانائے سُبل، ختم الرسل، مولائے کلؐ جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا


پورے پاکستان میں عید میلاد النبی منائی گئی۔ شہروں، محلوں اور گلیوں میں ہر بندے نے اپنی اپنی سوچ اور نظریہ کے مطابق اس کو منایا۔ میں اس بحث سے قطع نظر کہ آیا اس کو منانا چاہیے یا نہیں یا دین اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ بلکہ ایک اور بات کی طرف سب دوستوں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ تمام مسلمان چاہے عید میلاد النبی منانے والے ہوں یا نہ منانے والے ہوں سب عشق رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دعوٰی کرتے ہیں۔

جو مناتے ہیں وہ یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ یہ دن ہم لوگ عشق رسول میں مناتے ہیں اور جو نہیں مناتے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم بھی عشق رسول میں نہیں مناتے۔ میں حیران ہوں کہ یہ کیسا عشق کے جس کا دعوٰی ہر دو فریقین کرتے ہیں۔ اسے میں ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ عشق ہوتا کیا ہے؟ عشق کے بارے میں شاعری اور لٹریچر بھرا پڑا ہے۔ عشق پہ بہت لکھا گیا ہے۔ اگر اس سب کو اکٹھا کیا جائے تو میری ناقص رائے اور علم کے مطابق عشق کی تشریح کچھ یوں کروں گا۔

عشق ایک ایسا جذبہ ہے جس کو ہم چار مدارج یا یوں کہو کہ اس کے چار درجے ہوتے ہیں۔ پہلا درجہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ عاشق کے دل میں معشوق کے حوالے سے محبت اور انسیت کا پیدا ہونا۔ کسی سے پیار ہوجانا اور دل سے اچھا لگنا وغیرہ۔ دوسرا درجہ جو کہ بہت اہم ہے وہ ہے علم حاصل کرنا۔ یعنی معشوق کے بارے میں ایک ایک بات کا علم حاصل کرنا۔ اسے کیا پسند ہے؟ کیا ناپسند ہے؟ وہ کیا کیا کام کیسے کیسے کرتا ہے؟ کس بات پہ خوش ہوتا ہے؟ کس پہ غصہ اور غمگین ہوتا ہے؟ یعنی محبوب کی زندگی کے اک ایک پہلو کا محب کو علم ہونا چاہیے۔

اور تیسرا درجہ ہے کہ اپنے محبوب کو اپنی زندگی کے ایسے مقام پہ فائز کردیا جائے جہاں پہ وہ ایک حقیقی ہیرو یا ایک آئیڈیل بن جائے۔ یعنی محبوب کا مقام ایسا ہوجائے کہ محب کی زندگی میں کوئی اس کو چیلنج نہ کر سکے۔ اور آخری درجہ جو کہ منتہائے عشق ہے۔ اور وہ ہے خود کو بقول شاعر پیا رنگ میں رنگ لینا۔ اس درجہ پہ عاشق ہر وہ کام کرنا شروع کردے جو معشوق کو پسند ہو اور ہر اس کام سے دور بھاگے جو معشوق کو نہ پسند ہو۔ مطلب محبوب کی خوشی میں خود کو خوش کر لینا۔

اب میں تمام عاشقان رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ کا عشق اس سطح کا ہے؟ کیا ہم عموماً اپنی روزمرہ زندگی اور خصوصاً آج کے دن کوئی ایسا کام تو نہیں کررہے جو سید الانبیاء صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ناپسند ہو اور نتیجہ کے طور پہ وہ ہم سے ناخوش ہوں۔ اور کہیں ہمارا عشق اور محبت رائگاں چلا جائے۔ یہ عشق کا تقاضا ہے کہ عاشق کو معشوق کی ہر ادا کا خود سے پتا ہو اس کو آپ علم معشوق بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور عاشق علم معشوق حاصل کرے اور پھر اسی کے رنگ میں رنگ جائے۔ یہی بات اللہ رب العزت نے یوں فرمائی۔

”کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے“

اس لیے عید میلاد النبی منانے والے اور نہ منانے والے تمام عاشقان رسول کو اپنا اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ اور اپنے ہر عمل کو دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ سرکار دوعالم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے خوشی کا باعث ہے یا غمی کا باعث ہے؟ اور ہر اس عمل کو اپنائے جو ان کو پسند ہو اور ہر اس عمل سے بچے جو انہیں ناپسند ہو۔

اور اگر کوئی ایسا نہ کرسکے تو پھر دعوی عشق بس دعوی ہی ہے۔ آخر میں بقول اقبال؛
وہ دانائے سُبل، ختم الرسل، مولائے کلؐ جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya