کیا کراچی آپریشن جاری ہے؟


ایک معروف ادیب وکالم نویس کا تحریر کردہ ایک لطیفہ یاد آیا جس کی ضرورت آج کے اپنے کالم میں محسوس کی۔
ہوٹل میں ایک عیاش شخص کا قیام تھا۔ وہ رات شراب کے نشے میں دھت لڑکھڑاتے ہوئے کاونٹر پر پہنچا اور پوچھا۔ ”مینجرکہاں ہے؟ اس سے بات کرنی ہے“ ریسپشنسٹ نے مودبانہ لہجے میں گزارش کی ”سر! وہ تو اس وقت موجود نہیں ہے۔ فرمائیے، ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟“ عیاش شخص نے کہا۔ ”نہیں مجھے صرف منیجر سے بات کرنی ہے وہ کہاں ہے؟“ منیجر نے دوبارہ دست بدستہ عرض کی ”سر! کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہم پوری کر دیتے ہیں آپ کو بیڈ کے بارے میں تو کوئی شکایت نہیں؟“

اس نے کہا۔ ”نہیں بیڈ شاندار ہے اس سے کوئی پریشانی نہیں“ ریسپشنسٹ نے پھر سہمے لہجے میں پوچھا ”تولیوں یا پردوں کے بارے میں کوئی پریشانی ہے؟“ جواب ملا ”نہیں وہ بھی بہترین ہیں ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں“ ”کیا باتھ روم میں پانی نہیں آ رہا“ مدہوش شخص نے جواب دیا ”پانی بھی آ رہا ہے“ ”کیا ائیر کنڈیشن کام نہیں کر رہا؟“ جواب ملا ”وہ بھی ٹھیک چل رہا ہے“ ”تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ آ پ کو شکایت کیا ہے؟“ ریسپشنسٹ نے اب کے بار جلے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

”دراصل کمرے میں آگ لگی ہے۔ اور وہ آہستہ آہستہ پھیلتی چلی جا رہی ہے اس کے بارے میں منیجر سے بات کرنے آیا تھا“ نشے میں دھت شخص نے انتہائی مطمئن اور پرسکون انداز میں جواب دیا۔ ریسپشنسٹ نے یہ بات سنی تو فوری ہوٹل مالک کو پیغام بھیجا۔ مالک آیا۔ اس کا رنگ اُڑا ہو تھا ٹانگیں لرز رہی تھیں۔ اس نے فائر بریگیڈ کو فون کیا۔ چیخ و پکار شروع کردی۔ سب کی دوڑیں لگ گئیں۔ لیکن شرابی کو قطعی پروا نہیں تھی وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا وہ اس منظر سے محفوظ ہو رہا تھا۔

اسے ذرا برابر پروا نہیں تھی کہ اس کے کمرے میں لگنے والی آگ کچھ ہی دیر میں سب کچھ بھسم کرسکتی ہے۔ دراصل ہوٹل میں قیام کرنے والے عیاش شخص کو معلوم تھا کہ وہ ایک مسافر ہے رات کا کافی حصہ گزر چکا۔ جتنا رہنا چاہتا تھا رہ چکا کل اس سے بہتر جگہ مل جائے گی۔ چنانچہ وہ انتہائی پر سکون تھا۔ اسے آگ کی پروا نہ تھی نہ ہی آگ سے ہونے والے نقصان کے بارے میں وہ فکر مند تھا۔

آپ نے یہ لطیفہ پڑھا اب اپنے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں پر نظر ڈالیے کیا ہمارے حکمرانوں کے طور طریقے اس عیاش شخص سے جدا ہیں؟ انھوں نے بھی اس ملک کو ایک ہوٹل کاکمرہ سمجھ رکھا ہے۔ عوامی اعتماد حاصل کر کے ایوانوں کے شان بننے والے وزراء اس دھرتی کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں اس سے کون واقف نہیں۔ ملک انتشار کا شکار ہو مسلکی آگ ہو معاشی بد حالی ہو امن و امان کی دگرگوں صورتحال ہو انھیں کیا پروا۔ ہوش تو ان کے اڑیں گے جن کے خون پسینے کا یہ وطن مقروض ہے جن کا گھر یہی ہے جن کاکل سرمایہ یہ پاک دھرتی ہے۔

اس گلشن میں آگ لگی ہو بیرونی طاقتوں کی یلغار ہو اس کی ٖفضاؤں میں بارود کی بو ہو تو مجال ہے کہ ہمارے مسافر نما حکمرانوں کے کان پر جوں بھی رینگے۔ گذشتہ دور حکومتوں کا درد ناک حال آج بھی سب کو یاد ہے۔ آئے دن بم دھماکے، بھتہ خوری اغوا برائے تاوان خون ریزی کا ماحول اور ملک میں بے یقینی کی صورتحال نے بے شمار چمن اجاڑ دیے تھے متعدد متاثر ہ افراد آج بھی اس دردناک لمحات کی یاد تازہ کرتے ہیں اسی لاچاری کے دور میں پشاور اسکول واقعے کی داستان آج بھی ہمیں خون کے آنسوں رلاتی ہے اسی دہشت نے آج کے مستقبل کے معماروں کے ذہنوں پر انمٹ نشان چھوڑے ہیں اور یہی سانحہ تھا جس نے حکمرانوں کی آنکھوں پر بندھی پٹی اتاری۔

انھیں مجبوراً ملک بھر میں برپا فساد کی بیخ کنی کے لئے اقدامات کرنے پڑے، اور ایک مضبوط پلان تشکیل دینے کے لئے فوجی اور عسکری قیادت نے لائحہ عمل ترتیب دیا اور سیکورٹی اداروں اور عوام کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں اللہ کے فضل سے پاکستانی عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ اسی آپریشن کے نتیجے میں جہاں پاکستان بھر میں امن قائم ہوا وہی دہشت گردی کا شکار کراچی نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ ملک کے خراب حالات میں اس شہر کے مکینوں نے جو ظلم سہے اس کے متاثرین آج بھی زندہ لاش بنے ہوئے ہیں۔

اس بے بسی کے دور میں چھوٹے کاروباری افراد سے لے کر بڑے صنعت کاروں تک کو بھتہ مافیا کالعدم مذہبی اور سیاسی تنظیموں نے اپنے عتاب کا شکار بنایا۔ بے امنی کی اس فضا میں بے شمار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹے اور متعدد تو ملک سے ہجرت پر مجبور ہو گئے۔ البتہ سابقہ دور حکومت کے کچھ افراد نے کراچی کے درد کو محسوس کرتے ہوئے خصوصی توجہ دی اور جرائم پیشہ اور دہشت گردوں سے کراچی کو پاک کرنے کے لئے اقداماتکیے گئے۔

اس آپریشن میں بے شمار پولیس اور رینجرز کے جوانوں نے اپنے جان پر کھیل کر دہشت گردوں کے مضبوط نیٹ ورک کو تباہ کیا بلکہ عالمی سطح پر ان اقدامات کو سہرایا گیا۔ کراچی کی روشنیاں پھر سے آباد ہونے لگی کاروبار ی سرگرمیاں پھر عروج پر ہو گئی مگر ملنے والی خوشی دیرپا ثابت نہیں ہو رہی، ایک بار پھر کراچی کے امن کو نظر بد لگ گئی ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کراچی آپریشن میں کچھ نقائص رہ گئے تھے جس کے نتیجے میں قائدآباد بلاسٹ کا واقعہ پیش آیا۔

ایک بار پھر کراچی کی عوام خوف کا شکار ہو گئی اس واقعے نے بدلتے پاکستان کے حکمرانوں کو ایک بار پھر چیلنج کر دیا ہے۔ اس درد ناک واقعے کے نتیجے میں جہاں پانچ افراد لقمہ اجل بنے اور متعدد زخمی ہو گئے وہی ایک ٹھیلے والا نوجوان ساتھ بہنوں کا اکلوتا بھائی بھی چل بسا جس کے خون کا ایک ایک قطرہ ملکی سلامتی کے اداروں سے کراچی کے امن کا سوال کر رہا ہے۔ کیا کراچی پر امن ہو چکا؟ کیا کراچی کے باسی اسے صرف ایک حادثہ سمجھ کر بھول جائیں یا آپریشن ابھی جاری ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).