سڈنی بیچ، قدرتی شرمیلی لڑکیاں اور اندھے مرد


پچھلے برس میں اپنی فیملی کے ساتھ سڈنی ساحل سمندر، باؤنڈی بیچ، گیا۔ یہ نہایت خوبصورت اور صاف ستھری جگہ ہے۔ آسٹریلیا میں آج کل سردیوں کا موسم ہے اور بیچ کی اصلی رونقیں تو گرمیوں میں ہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی دن کو اگر آسمان صاف ہو جو کہ یہاں اکثر ہی ہوتا ہے تو سردی کا احساس کم ہو جاتا ہے اور لوگ اپنا ضروری سامان اٹھاتے ہیں اور بیچ کی طرف نکل پڑتے ہیں۔ سمندر میں نہاتے ہیں، سرف بورڈ کے ذریعے ساحل سمندر کی طرف آتی ہوئی لہروں سے اٹھکھلیاں کرتے ہیں۔ کنارے کی ریت پر چہل قدمی کرتے ہیں اور سن باتھ سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کل بھی ساحل پر موجود لوگ سیکڑوں کی تعداد میں تھے۔ ان میں ہر عمر کی عورتیں مرد اور بچے سبھی شامل تھے۔

بڑی رونق لگی ہوئی تھی۔ میں چونکہ ایک پاکستانی مرد ہوں اور پاکستان کے حالات کا عادی ہوں لہٰذا مجھے فوراً احساس ہو گیا کہ یہاں پر موجود تمام مرد بیچارے اندھے ہیں۔ یار آپ خود ہی سوچو، اور مجھے علم کہ آپ یہ سوچنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں اور اس صلاحیت کو خوب استعمال بھی کرتے ہیں کہ بیچ پر یہ خوبصورت گوری لڑکیاں تقریباً بغیر لباس کے گھومتی پھرتی یا ریت پر لیٹی ہوئی یا پھر لہروں کے ساتھ کھیلنے کے بعد پانی سے واپس آتی ہوئی کیسی لگتی ہونگی۔ لہٰذا مجھے یہ سب تو لکھنے کی ضرورت نہیں۔ بس میں تو یہ دیکھ کر حیران تھا کہ وہاں پر موجود تمام کے تمام لڑکے اور مرد اندھے کیسے ہو گئے۔

مزید احساس یہ ہوا کہ یہاں کی لڑکیاں اور خواتین بیچاری بہت ہی بدقسمت، بے بس، لاچار اور دکھی ہیں۔ کیا کیا جتن کر رہی ہیں لیکن پھر بھی مردوں کی توجہ اپنی طرف کرانے میں بالکل ناکام ہیں۔ ہمیں تو پتا ہے نا کہ لڑکی کا ہر عمل اور ہر حرکت تو دراصل مردوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہی ہوتی ہے۔ ورنہ کیا پڑی تھی ان سب خواتین کو کہ گھروں میں اپنے تمام کام چھوڑ چھاڑ کر نکل پڑی ہیں بیچ کی سیر کے لئے۔ اب کیا تھا بیچ پر موجود تمام مردوں کے اندھے پن سے تنگ آ کر بیچاری یہ ظاہر کر رہی تھیں کہ جیسے وہ بھی مردوں ہی کی طرح پانی، ریت، کھلی فضا اور خوبصورت موسم کے مزے لے رہی ہیں۔ بیچاری لڑکیاں مرتیں کیا نہ کرتیں، اپنی بے عزتی کو اور کیسے چھپاتیں بس اسی اداکاری کا سہارا لیا ہوا تھا انہوں نے۔

کہاں ہمارا پاکستان ہم تو سات پردوں میں چھپی لڑکی کے جسم کے ہر زاویئے کا ایکسرے کر لیتے ہیں۔ اور سنی لیئون کا بدن ہر چہرے کے ساتھ فٹ کر لیتے ہیں۔ راہ چلتی لڑکیوں پر توجہ دیتے ہیں اور اگر وہ یہ ظاہر کریں کہ ہماری موجودگی اور دلچسپی ان کے نوٹس میں نہیں آئی تو ہم انہیں اپنی توجہ کا احساس دلائے بنا چھوڑتے نہیں۔

پاکستان میں تو لڑکے اور مرد محنت کرتے ہیں۔ لڑکی کے گھر کا پتا، اس کے گھر سے باہر نکلنے اور واپس آنے کے اوقات نوٹ کرتے ہیں اور اپنی آسانی کے لئے اس کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ باقی رہی گھر سے نکلنے کی وجہ تو اس کا ہمیں پتا ہی ہے۔ پاکستان میں اکثر لڑکیوں کو گھر سے نکلنے کی کوئی مجبوری نہیں ہے بس دل پشوری کرنے کو نکلتی ہیں اور بہانہ ہوتا ہے سکول کالج یا ہسپتال وغیرہ کا۔ جہاں تک گھر سے باہر باقی کاموں کی بات تو اس کے لئے گھر کے مرد ہوتے ہیں نا۔

اور ہاں گھر رہ رہ کر تنگ آ جانا، باہر ہواخوری کو دل کرنا، چہل قدمی کرنا، پارک جانا، کھیلنا اور دوستوں کو ملنے جانا وغیرا یہ سب تو عورتوں کے حصے میں نہیں آتا کیونکہ وہ تو قدرتی طور پر گھر ہی میں رہنے کے لئے ڈیزائن کی گئی ہیں اور خاص طور پر اچھی لڑکیاں تو بالکل ہی گھر کے لئے بنی ہیں اور گھر ہی میں رہنا
پسند کرتی ہیں۔ اس کا ایک فائدہ تو انہیں یہ ہوتا ہے کہ گھر سے باہر چھیڑچھاڑ کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا پڑتا۔ اور چاردیواری کے اندر خیر اس بات کو چھوڑیں ہم پاکستانی مسلمان مرد ہیں کوئی گورے نہیں کہ گھر کی عزت سماجی علمی تحقیق کے نام پر گلیوں، بازاروں اور تحقیق مقالوں میں رولتے پھریں۔ واپس موضوع پر آتے ہیں، مرد چونکہ قدرتی طور پر باہر کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے وہ زیادہ دیر تک گھر میں نہیں رہ سکتا اور باہر نکلنا اس کا حق ہے۔ مرد کو تو گھر سے باہر نکلنے کے لئے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہے وہ تو ویسے بھی نکل سکتا ہے۔

خیر تو ذکر ہو رہا تھا سڈنی بیچ پر موجود نابینا مردوں اور پریشان حال عورتوں کا، میری ایک پریشانی یہ تھی کہ لڑکیاں تو قدرتی شرمیلی ہوتی ہیں اور یہاں نظارہ کچھ اور ہی ہے۔ لیکن میرا دل یہ بھی تو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا کہ لڑکیاں قدرتی شرمیلی نہیں ہوتیں۔ بہت سوچنا پڑا اور پھر حل نکلا دماغ کی اس الجھن کا۔ لڑکیوں کو قدرتی شرمیلا بنانے کے لئے دو اسباب بہت ضروری ہیں۔ ایک، سب کو علم ہونا چاہیئے کہ عورت ذات کے بحیثیت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی بہت حقوق ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ عورت کو بھی مرد کی طرح انسان ہی کہہ دیا جائے تو یہ ساری گردان نہیں کرنا پڑے گی تو اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسے ماں بہن بیٹی اور بیوی انسانوں ہی کی کہہ رہے ہیں۔ اور ہاں کچھ فرائض بھی عورت کی ان پوزیشنوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اور اگر ان فرائض کی ادائیگی کے بارے میں تھوڑی سختی کی جائے اور اس میں سستی پر ہلکی پھینٹی کے خوف کا تڑکا بھی لگایا جائے تو کافی مسائل حل ہو سکتے ہیں پھر عورتوں اور لڑکیوں کو گھر سے باہر نکلنے کی یاد زیادہ نہیں ستاتی۔ اور وہ قدرتی شرمیلی ہو جاتی ہیں۔ دوسرا، غیرت مند مردوں کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے مرد جن کی نظر نہ صرف ٹھیک ہو بلکہ آنکھوں میں ایکسرے مشین بھی فٹ کی ہوئی ہو۔ تاکہ لڑکیاں جب گھر سے باہر نکلیں تو انہیں مایوسی نہ ہو۔ یہی ماحول لڑکیوں کو قدرتی شرمیلی بنا دے گا اور گھروں سے باہر قدم رکھنے سے پہلے وہ کئی مرتبہ سوچیں گی۔ ان مغربی معاشروں کو بھی ہم جیسے غیرت مند مردوں کی اشد ضرورت ہے ورنہ یہ نابینا مرد تو صورت حال کو کبھی قابو نہیں کر پائیں گے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments